Mulazmat Wali Jagah Par Namaz Qasar Hogi Ya Puri?‎

ملازمت والی جگہ پر نمازِ قصر ہوگی یا پوری

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:pin:5813

تاریخ اجراء:15محرم الحرام1440ھ/26ستمبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں گوجرانوالہ کا رہائشی ہوں اوراسلام آباد میں ملازمت کرتا ہوں۔میرے والدین اور بیوی بچے گوجرانوالہ میں ہی رہتے تھے ۔ابھی ادارے کی طرف سے مجھے رہائشی مکان ملا ہے اورمیں نے اپنی بیوی اور بچوں کو یہاں بلا لیا ہے۔میری ملازمت ختم ہونے میں تقریباً پانچ  سال باقی ہیں،جب بھی ملازمت ختم ہو گی ، میں اپنی فیملی کو لے کر گوجرانوالہ شفٹ ہو جاؤں گا۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا بیوی بچے یہاں آجانے کی وجہ سے اسلام آباد میرے لئے وطن اصلی بن گیا ہے؟گھر سے یہاں آ کر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی صورت میں مجھے نماز پوری پڑھنی ہو گی یا قصر؟یہ بھی یاد رہےکہ اسلام آباد گوجرانوالہ سے شرعی مسافت پہ واقع ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں اگرچہ آپ کے بیوی بچے آپ کے ساتھ ہی اسلام آباد  رہتے ہیں ،تب بھی اسلام آباد آپ کے لئے وطن اصلی نہیں بنے گا ،کیونکہ اسلام آباد آپ کا قیام عارضی ہے ،مستقل نہیں اور جو جگہ انسان کی جائے ولادت نہ ہو،نہ وہاں اس نے شادی کی  اور نہ ہی وہاں مستقل رہنے کا ارادہ ہو، تو وہ جگہ اس کے لئے وطن اصلی نہیں بنتی اگرچہ وہاں عارضی طور پر کئی برس  رہنے کا ارادہ ہو،اگرچہ بیوی بچے بھی ساتھ ہی رہتے ہوں ، لہٰذا جب بھی آپ گوجرانوالہ سے اسلام آباد پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کے ارادے سے آئیں گے،تو آپ چار رکعت والی نماز میں قصر  کریں گےاوراگر پندرہ یا اس سے زیادہ دن مستقل ٹھہرنے کا ارادہ ہو ،تو نماز پوری پڑھیں گے ۔

     اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے؛نہ وہاں اس نے شادی کی؛نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں  رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا،بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی ،اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ، اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجتِ اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام ایک وجہ خاص سے ہے،نہ مستقل ومستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا ، جب تک15 دن کی نیت نہ کرے گا، قصر ہی پڑھے گا کہ وطنِ اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے۔

     ’’فی الدرالمختار:الوطن الاصلی وھوموطن ولادتہ اوتاھلہ اوتوطنہ‘‘در مختا ر میں ہے:وطنِ اصلی وہ ہے ، جہاں آدمی کی ولادت ہوئی ہو یا  وہاں اس نے شادی کی ہو یا اس جگہ کو  اپنا وطن بنا لیا ہو ۔

     ردالمحتار میں ہے:قولہ’’اوتاھلہ‘‘ ای تزوجہ قال فی شرح المنیۃ:ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینوا لاقامۃ بہ فقیل لا یصیر مقیما وقیل یصیر مقیما وھو الاوجہ قولہ’’اوتوطنہ‘‘ای عزم علی القرارفیہ وعدم الارتحال وان لم یتاھل فلو کان لہ ابوان ببلد غیر مولدہ وھوبالغ ولم یتاھل بہ فلیس ذلک وطنا الا اذاعزم علی القرارفیہ وترک الوطن الذی کانہ لہ قبلہ‘‘مصنف کا قول’’تاھلہ‘‘کا معنی یہ ہے کہ وہاں اس نے  شادی کی ہو۔ شرح منیہ میں ہے: اگر مسافر نے کسی شہر میں شادی کرلی اور وہاں اقامت نہ کی ،تو ایک قول یہ ہے کہ وہ مقیم نہیں ہوگا اور ایک قول کے مطابق مقیم ہو جائے گا اوریہی اوجہ  ہےاور مصنف کا یہ قول’’او توطنہ‘‘اس کا معنی یہ ہے کہ وہاں ٹھہرنے اور کوچ نہ کرنے کا پکا اراد ہ کر لیاہو اگرچہ وہاں شادی نہ کی ہو۔پس اگر کسی شخص کے والدین ایسے  شہر میں رہتے ہوں،جواس کی جائے ولادت نہیں اورنہ ہی وہاں  اس نے شادی  کی اور یہ خود بالغ ہے  ،تو والدین کا شہر اس کے لئے  وطن اصلی نہیں ہو گا ، البتہ اگر اس شہر میں ٹھہرنے کا پکا ارادہ ہو اور  پہلے والا وطن ترک کر دے ،تو وہ شہر اس کے لئے وطن اصلی بن جائے گا ۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج8،ص271 ، 272، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

     مزید ایک مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’جبکہ مسکن زید کا دوسری جگہ ہے اور بال بچوں کا یہاں رکھنا عارضی ہے ،تو جب یہاں آئے گا اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کرے گا ،قصر کرے گا اور پندرہ دن یا زیادہ کی نیت سے مقیم ہو جائے گا ،پوری نماز پڑھے گا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج8،ص270، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم