Muqeem Hone Ke Liye Din Ki Bajaye Raat Guzarne Ki Niyat Ka Aitbaar Kyun?

مقیم ہونے کے لیے دن کی بجائے رات گزارنے کی نیت کا اعتبار کیوں ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:105

تاریخ اجراء: 07جمادی الاولی  1445ھ/22نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  یہ مسئلہ تو معلوم ہے کہ کسی  مقام کے  وطن اقامت  قرار پانے کےلیے وہاں پندرہ راتیں مسلسل گزارنے کی نیت ضروری ہے اگرچہ دن کسی دوسری جگہ پر گزارے۔سوال یہ ہے کہ یہاں  رات کا اعتبار کرنے کی وجہ کیا ہے،دن کا اعتبار کیوں نہیں کیا گیا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وطن اقامت کے معاملے میں دن کے بجائے رات گزارنے کی نیت  کا اعتبار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کسی شخص  کی جائےرہائش وہی کہلاتی ہے جہاں وہ رات گزارتاہے، مثلاً   جوشخص دن کے وقت    بازار میں ہوتا ہے،لیکن رات کسی اور  مقام پر  گزارتا ہے،اس سے اگر آپ سوال کریں کہ آپ کی رہائش کہاں ہے؟تو وہ اسی مقام کا ذکر کرتا ہے جہاں وہ رات کو رہتا ہے ۔

   رات کا اعتبار کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بحر الرائق میں فرمایا:" لأن إقامة المرء تضاف إلى مبيته يقال فلان يسكن في حارة كذا، وإن كان بالنهار في الأسواق"وجہ یہ ہے کہ   آدمی کی  رہائش کی نسبت  اس مقام کی طرف  ہوتی ہے جہاں وہ رات گزارتاہے ،کہا جاتا ہے فلاں شخص فلاں بستی میں رہتا ہے اگرچہ دن کے وقت وہ بازاروں میں ہوتا ہو۔(بحر الرائق ، جلد 2، صفحہ232، مطبوعہ کوئٹہ)

   محیط برہانی میں  ہے:" لأن موضع إقامة الرجل حيث يبيت فيه ألا ترى أنك إذا قلت للسوقي: أين تسكن؟ يقول: في محلة كذا، وإن علم أن يكون في السوق في النهار وكان هو الأصل يوجب اعتباره"(رات کا اعتبار کرنے کی )وجہ یہ ہے کہ  آدمی کی جائے اقامت وہی ہوتی ہے جہاں وہ رات گزارتاہے ، کیاآپ نہیں دیکھتےکہ جب  آپ  بازار میں کام کرنے والے کسی  شخص سے پوچھیں کہ آپ کی رہائش کہاں ہے ،تووہ کہتاہے کہ فلاں محلے میں ،حالانکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دن  کے وقت وہ  بازارمیں ہوتاہے ،لہذا رہائش کے اعتبار سے رات ہی اصل  ٹھہری تو اس کا اعتبار کرنا لازم ہے۔(محیط برہانی ،جلد 2، صفحہ  392، مطبوعہ ادار ۃ التراث الاسلامی)

   تنبیہ :خیال رہے دن میں کسی دوسری جگہ جانےکے باوجود وطن اقامت   کا برقرار رہنا اسی صورت میں ہے جب وطن اقامت سےشرعی مسافت(92 کلومیٹر یا اس سے زائد فاصلے) کے ارادے سے نہ جائے اور نہ ہی اپنے وطن اصلی میں جائےاگرچہ  وہ شرعی مسافت سےکم فاصلے پر ہو،ورنہ وطن اقامت باطل ہوجائےگا۔

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:" جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت الٰہ آبادمیں کر لی ہے، تو اب الٰہ آبادوطنِ اقامت ہو گیا۔ نماز پوری پڑھی جائے گی جب تک وہاں سے تین منزل کے ارادہ پر نہ جاؤ۔ "(فتاوی رضویہ،جلد8، صفحہ  251،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہورٌ)

   بہار شریعت میں ہے:" وطن اقامت، وطن اصلی و سفر سے باطل ہو جاتا ہے۔ "(بہار شریعت،جلد 1، صفحہ  751، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم