Muqeem Shakhs 15 Din Se Kam Qiyam Ki Niyat Karle Tu Kya Musafir Ho Jayega ?

مقیم شخص پندرہ دن سے کم قیام کی نیت کرلے، تو کیا مسافر ہوجائے گا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13186

تاریخ اجراء: 06جمادی الثانی1445 ھ/20دسمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ اگر مسافر نے کسی جگہ پورے 15 دن ٹھہرنے کی نیت کر لی لیکن اگر وہ  چار دن بعد ہی اپنا ارادہ تبدیل کرلے کہ میں نے اب بجائے پندرہ دن کے ٹوٹل گیارہ  دن ہی یہاں قیام کرنا ہے، تو اس صورت میں آئندہ سات دنوں کی نمازوں میں وہ شخص قصر کرے گا  یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مقیم شخص محض سفر کے ارادے سے مسافر نہیں بنتا،اور  جب تک مقیم شرعی سفر کے ارادے سے اپنے  وطنِ اقامت سے باہر نہ چلا جائے تب تک اُس کا وہ وطنِ اقامت باطل نہیں ہوتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں وہ شخص آئندہ سات دنوں کی نمازیں بھی پوری ہی پڑھے گا ۔

   مقیم محض نیتِ سفر سے مسافر نہیں ہوگا جیسا کہ محیطِ برہانی ، ذخیرۃ الفتاوی میں ہے:” والنظم للاول“من كان مقيماً في مكان لا يصير مسافراً بمجرد النية ما لم يخرج“یعنی جو کسی جگہ پر مقیم ہو تو وہ محض سفر کی نیت سے مسافر نہیں ہوجائے گا، جب تک کہ  شرعی سفر کے ارادے سے اس شہر سے باہر نہ ہوجائے۔(المحيط البرهاني، کتاب الصلاۃ، ج 02،  ص 34، دار الكتب العلمية، بيروت)

   وطنِ اقامت کب باطل ہوتا ہے؟ اس متعلق فتاوٰی عالمگیری،تبیین الحقائق، رد المحتار وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للاول“وطن الإقامة يبطل بوطن الإقامة وبإنشاء السفر وبالوطن الأصلي ، هكذا في التبيين۔“یعنی وطنِ اقامت، وطنِ اقامت سے، شرعی سفر شروع کردینے سے اور  وطنِ اصلی سے باطل ہوتا ہے، ایسا ہی تبیین میں مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 142، مطبوعہ پشاور)

   بحر  الرائق   میں ہے:”أما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه ، وهو صالح لها نصف شهر ، وهو ينتقض بواحد من ثلاثة بالأصلي ؛ لأنه فوقه وبمثله وبالسفر ؛ لأنه ضده “یعنی وطنِ اقامت وہ جگہ ہے  جہاں مسافر نے پندرہ دن اقامت کا ارادہ کیا ہو اور وہ جگہ اقامت کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔  وطنِ اقامت تین میں سے کسی ایک چیز کے ساتھ ختم ہوتا ہے، وطنِ اصلی سے کہ یہ وطنِ اقامت سے بڑھ کر ہے، یونہی اپنے مثل وطنِ اقامت سے بھی باطل ہوجاتا ہے، یونہی شرعی  سفر سے بھی باطل ہوجاتا ہے کہ سفر کرنا اقامت کی ضد ہے ۔(بحر  الرائق،  کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 147، دار الكتاب الإسلامي)

   بہارِ شریعت میں ہے:” وطن اقامت دوسرے وطن اقامت کو باطل کر دیتا ہے یعنی ایک جگہ پندر دن کے ارادہ سے ٹھہرا پھر دوسری جگہ اتنے ہی دن کے ارادہ سے ٹھہرا تو پہلی جگہ اب وطن نہ رہی، دونوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو۔ یوہیں وطن اقامت وطن اصلی و سفر سے باطل ہو جاتا ہے۔(بہارشریعت، ج 01، ص 751، مکتبۃ  المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم