Musafat e Shari Tak Pahunchne Se Pehle Laut Aaya Tu Hukum

مسافت شرعی تک پہنچنے سے پہلے لوٹ آیا  توکیا حکم ہوگا؟

مجیب:ابومحمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:115

تاریخ اجراء: 29محرم  الحرام 1443ھ/07ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ 92 کلو میٹر یا اس سے زائد کے ارادے سے سفر شروع کیا، لیکن ابھی پندرہ بیس کلو میٹر ہی سفر کیا تھا کہ  کسی وجہ سے ارادہ کینسل ہوگیا اور واپس آگئے، تو مقیم کے احکام کب جاری ہوں گے؟جب گھر واپس پہنچ جائیں گے یا ارادہ ختم ہوتے ہی مقیم والے احکام شروع ہوجائیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مذکورہ صورت میں سفر کا ارادہ کینسل ہوتے ہی آدمی مقیم شمار ہوگا اور پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ مسافت شرعی یعنی 92 کلومیٹر یا اس سے زائد کی نیت سے سفر شروع کرنے سے آدمی اگرچہ مسافر ہو جاتا ہے،اور مسافر والے احکام بھی شروع ہوجاتے ہیں،مگرمسافر ہونا مستحکم تبھی ہوتا ہےجب پورے 92 کلومیٹر کا سفر طے کر لیا جائے،اگر کسی وجہ سے 92 کلومیٹر سے پہلے سفر ختم کرنے کا ارادہ ہوجائے، تو مسافر والا حکم فوراً باطل ہوجاتا ہے اور آدمی مقیم شمار ہوتا ہے۔

   مسافت شرعی سے پہلے لوٹ آنےوالے شخص کے متعلق درمختار میں فرماتے ہیں:"یتم بمجرد نیۃ العود لعدم استحکام السفر " مسافر محض لوٹنے کے ارادے سے پوری نماز پڑھے گا سفر کے مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے۔ )درمختار مع رد المحتار،جلد 2،صفحہ 728،مطبوعہ کوئٹہ(

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"العلة في الحقيقة هي المشقة و أقيم السفر مقامها ولكن لا تثبت عليتها إلا بشرط ابتداء وشرط بقاء، فالأول مفارقة البيوت قاصدا مسيرة ثلاثة أيام، والثاني استكمال السفر ثلاثة أيام، فإذا وجد الشرط الأول ثبت حكمها ابتداء فلذا يقصر بمجرد مفارقة العمران ناويا ولا يدوم إلا بالشرط الثاني فهو شرط لاستحكامها علة فإذا عزم على ترك السفر قبل تمامه بطل بقاؤها علة لقبولها النقض قبل الاستحكام ومضى فعله في الابتداء على الصحة لوجود شرطه ولذا لو لم يصل لعذر ثم رجع يقضيها مقصورة كما قدمناه فتدبره"حقیقت میں علت تو مشقت ہے اور سفر کو اس کے قائم مقام کیا گیا ہے لیکن سفر کا علت بننا ابتدااور بقا کی شرط کے ساتھ ثابت ہوگا ، پس اول (ابتدا)گھروں سے تین دن کے سفر کے ارادہ سے جدا ہوجانا ہے،اور دوسرا (بقا)تین دن سفر کو پورا کرنا ہے، پس جب پہلی شرط پائی جائے،تو شروع میں علت والا حکم ثابت ہوجائے گا،لہذا وہ آبادی سے سفر کی نیت سے جدا ہوتے ہی نمازوں میں قصر کرے گا اور سفر والا یہ حکم برقرار نہیں رہے گا مگر دوسری شرط کے ساتھ ، لہذا سفر کے بطور علت مستحکم ہونے کے لئے وہ شرط ہوگا،پس سفر پورا ہونے سے پہلے جب وہ  ترکِ سفر کا ارادہ کر لے تو سفر کا بطور علت باقی رہنا باطل ہوجائے گا،اس کے استحکام سے پہلے ہی ختم ہوجانے کو قبول کر لینے کی وجہ سے،اور اس کا شروع والا فعل صحت پر جاری ہوگا ۔ اس کی شرط (سفر شروع کرنے کے)پائے جانے کی وجہ سے، اسی وجہ سے اگر عذر کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا پھر لوٹ آیا، تو قصر کے ساتھ قضا کرے۔ جیسا کہ یہ مسئلہ قریب ہی ہم بیان کر چکے،پس تو غور و فکر کر۔ )رد المحتار،جلد 2،صفحہ 728،مطبوعہ کوئٹہ(

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:"فلو عزم علی الرجوع الی بلدہ قبل سیرہ ثلاثۃ ایام علی قصد قطع السفر فانہ یتم کما مر"اگر کسی شخص نے تین دن سفر پورا کرنے سے پہلے، سفر ختم کرنے کے ارادہ سے  اپنے شہر لوٹنے کا ارادہ کر لیا،تو وہ پوری نماز پڑھے گا۔ جیسا کہ یہ مسئلہ پیچھے گزر چکا۔ )رد المحتار،جلد 2،صفحہ733،مطبوعہ کوئٹہ(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم