Musafir 92 Kilometer Se Pehle Hi Wapsi Ka Irada Kar Le To Musafir Nahi Rehta

مسافر92 کلو میٹر سے پہلے ہی واپسی کا ارادہ کر لے تو مسافر نہیں رہتا ، مقیم ہوجاتا ہے

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:131

تاریخ اجراء:07شوال المکرم1438ھ/02جولائی2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ میرا  گھر چکوال میں ہے، عید کی چھٹیوں کے بعد بسلسلہ ملازمت لاہور جانے کے لئے شام تقریبا 5 بجے جب اڈے پر پہنچا ،تو معلوم ہوا کہ سواریاں زیادہ ہونے کی وجہ سے ساری گاڑیاں وقت سے پہلے ہی چلی گئی ہیں ،مزید معلومات کرنے پرمعلوم ہوا کہ اب صبح ہی گاڑی ملے گی ،لیکن میری کوشش تھی کہ میں آج ہی واپس اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاؤں، لہٰذا میں بلکسر انٹر چینج پر چلا گیا ،جوتقریبا 25 کلومیٹر چکوال سے دور ہے، وہاں تقریبا 1 گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد بھی گاڑی نہ ملی، تو میں واپس چکوال اپنے گھر کی طرف چل پڑا ۔ اس وقت تقریبا ًساڑھے چھ ہو چکے تھے اور عصر کے وقت میں تقریباً آدھا گھنٹہ باقی تھا، اب اگر میں چکوال جا کر نماز پڑھتا، تو قضا ہونے کا غالب گمان تھا اس لئے میں نے واپسی آتے ہوئے راستے میں عصر کی نماز دو رکعت ادا کی ۔ جس پر میرا اور میرے دوست کا اختلاف ہو گیا، میرا کہنا تھا کہ میں مسافر ہوں اس لئے دو رکعت پڑھوں گا، جبکہ دوست کا کہنا تھا کہ آپ نے 92 کلو میٹر سفر نہیں کیا اس لئے آپ مقیم ہیں۔اب پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اس صورت حال میں میرے لیے دو رکعت پڑھنا لازم تھا یا چاررکعت ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ کا دو رکعت پڑھنا درست نہیں تھا، بلکہ آپ کی وہ نماز نہیں ہوئی ،لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اس نماز کی قضا کریں، کیونکہ جب کوئی شخص شرعی سفر کی نیت سے اپنے شہر کی حدود سے نکل جائے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ نماز قصر کرے، لیکن اگر وہ 92 کلو میٹر کا سفر کرنے سے پہلے ہی واپسی کا ارادہ کر لے، تو اب وہ مسافر نہیں رہتا، بلکہ مقیم ہو جاتا ہے، اس لیے وہ چار رکعت ادا کرے گا۔

>

   المحیط البرہانی میں ہے:”المسافر إذا خرج من مصره مسافراً ثم بدا له أن يعود إلى مصره لحاجة وذلك قبل أن يسير مسيرة ثلاثة أيام صلى صلاة المقيمين في مكانه ذلك، وفي انصرافه إلى المصر“ یعنی مسافر جب سفر کرتے ہوئے اپنے شہر سے باہر نکل جائے، پھر اسے تین دن کی راہ کا سفر طے کرنے سے پہلے  کسی کام کے لیے واپس اپنے شہر آنا پڑے ،تو وہ اس جگہ پر اور وہاں سے واپس آتے ہوئے مقیم والی نماز پڑھے گا۔(المحیط البرھانی، جلد2، صفحہ400،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”إذا لم يسر ثلاثة أيام فعزم على الرجوع أو نوى الإقامة يصير مقيما“ یعنی جب کوئی شخص تین دن کی راہ نہ چلا ہواور وہ واپسی کا ارادہ کر لے یا اقامت کی نیت کر لے، تو وہ مقیم ہو جائے گا۔(فتاوی عالمگیری، جلد1، صفحہ154،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   ردالمحتار میں ہے: ”لو عزم على الرجوع إلى بلده قبل سيره ثلاثة أيام على قصد قطع السفر فإنه يتم“ یعنی اگر کوئی شخص تین دن کی راہ چلنے سے پہلےہی سفر ختم کرنے کی نیت سے واپسی کا ارادہ کر لے،تو وہ پوری نماز پڑھے گا۔(ردالمحتار، جلد2، صفحہ733، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”مسافر اس وقت تک مسافر ہے جب تک اپنی بستی میں پہنچ نہ جائے یا آبادی میں پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرلے، یہ اس وقت ہے جب تین دن کی راہ چل چکا ہو اور اگر تین منزل پہنچنے سے پیشتر واپسی کا ارادہ کر لیا، تو مسافر نہ رہا ،اگرچہ جنگل میں ہو۔“(بہار شریعت، جلد1، صفحہ744،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم