Musafir Imam Ka Pori Namaz Parhana Kaisa Hai ?

مسافر امام کا پوری نماز پڑھانا کیسا ہے ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12564

تاریخ اجراء: 05 صفر المظفر 1444 ھ/02 ستمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسافر امام نے مقیم مقتدیوں کی جماعت کرائی اور ظہر کی نماز میں مکمل چار رکعات پڑھا دیں  اور آخر میں سجدۂ سہو بھی نہیں کیا،بھول کر یا جان بوجھ کر ایسا کیا، تودونوں صورتوں میں امام اور مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟سائل:اختر عطاری

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مقتدیوں کی نماز باطل ہو گئی اور امام کی اپنی نماز واجب الاعادہ ہے ۔اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ امام نے جان بوجھ کر چار رکعات پڑھائیں یا بھولے سے پڑھائیں ، بہر صورت مقتدیوں کے لئے حکم یہ ہے کہ ان کی نماز باطل ہوگئی، کیونکہ اقتداء کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے امام کی نماز مقتدیوں کی نماز کے مثل ہو یا اس سے اعلیٰ ہو ،اگر امام کی نماز مقتدیوں کی نماز سے کم ہو، اقتداء باطل قرار پاتی ہے امام نے جو تیسری اور چوتھی رکعت پڑھائی وہ نفل کے حکم میں تھی اور مقتدیوں کی نماز یعنی فرض سے ادنی درجے کی تھی لہٰذا مذکورہ صورت میں مقیم مقتدیوں کی نماز باطل ہوگئی اور مقیم مقتدیوں پر اس نماز کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔مسافرشخص مقیم افراد کی امامت کروا سکتا ہے ، جب کوئی مسافر چار رکعت والے فرضوں میں مقیم لوگوں کی امامت کرے ،تو حکمِ شرعی یہ ہے کہ امام دو رکعت پر سلام پھیر دے اور مقیم مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر اپنی نماز پوری کریں۔

   مسافرامام دو رکعت پرقعدہ کرنے کے بعدجان بوجھ کر کھڑا ہوگیا اور دو رکعتیں مزید ادا کر کے سلام پھیرا ،یا دو رکعت پر قعدہ کرنے کے بعدبھولے سے کھڑا ہوگیا اور دو رکعت ملا لی،لیکن آخر میں سجدۂ سہو نہیں کیا، تو ان دونوں صورتوں میں پہلی دو رکعتیں فرض اور آخری دو رکعتیں نفل ہوگئیں ،البتہ دونوں صورتوں میں نماز مکروہِ تحریمی ہوئی جس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔نیز جس صورت میں امام نےجان بوجھ کردو رکعتیں ملائیں یا سجدۂ سہو واجب ہونے کے باوجود بلا عذرِ شرعی جان بوجھ کر سجدۂ سہو نہیں کیا،تو ان دونوں صورتوں  میں امام گناہ گار بھی ہوا،جس سے توبہ بھی اس پر لازم ہے۔

مسافرامام کے  تعلق سے جزئیات:

    مسافر مقیمین کی امامت کر سکتا ہے۔اس کے متعلق جوہرہ نیرہ میں ہے:”واذا صلی المسافر بالمقیمین صلی بھم رکعتین ثم اتم المقیمون صلاتھم یعنی وحدانا ولا یقرؤون فیما یقضون لانھم لاحقون“یعنی جب مسافر مقیم لوگوں کو نماز پڑھائے،تو ان کو دو رکعتیں پڑھائے ، پھر مقیم اپنی نماز کو اکیلے اکیلے پورا کریں اور باقی رکعتیں جو ادا کریں ان میں قراءت نہ کریں ،کیونکہ یہ لاحق ہیں۔(الجوھرۃ النیرۃ، جلد1،صفحہ 104،مطبوعہ: کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”ادا و قضا دونوں میں مقیم مسافرکی اقتدا کر سکتا ہے اور امام کے سلام کے بعد اپنی باقی دو رکعتیں پڑھ لے اور ان رکعتوں میں قراءت بالکل نہ کرے ،بلکہ بقدرِ فاتحہ چپ کھڑا رہے“ (بہارِ شریعت، جلد1،حصہ4، صفحہ 748،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مسافر شخص نے عمداً یا سہواً دو رکعت کی جگہ چار رکعات پڑھ لیں اور دوسری پر قعدہ کیا،تو اس کے فرض ادا ہوگئے اور آخری دو رکعتیں نفل ہوگئیں۔البتہ جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز مکروہِ تحریمی  ہوئی اور گناہ گار ہوا اوراگر  بھولے سے ایسا ہوا ،توسجدۂ سہو واجب ہوگا۔چنانچہ مراقی الفلاح میں ہے:”اذا اتم الرباعیۃ والحال انہ قعد القعود الاول قدر التشھد صحت صلاتہ لوجود الفرض فی محلہ وھو الجلوس علی الرکعتین وتصیر الاخریان نافلۃ لہ مع الکراھۃ لتاخیر الواجب وھو السلام عن محلہ ان کان عامدا فان کان ساھیا یسجد للسھو یعنی جب مسافر نے چار رکعات مکمل کرلیں اس حال میں کہ اس نے بقدرِ تشہدقعدۂ اولی کیا تھا، تو اس کی نماز درست ہوگئی کہ فرض یعنی دو رکعتوں پر بیٹھنا اپنے محل میں پایا گیا اور آخری دو رکعتیں نفل ہوگئیں،اگر جان بوجھ کر ایسا کیا ،تو واجب یعنی سلام  میں تاخیر کی وجہ سے نماز مکروہ ہوئی،اگر بھول کرہوا، تو سجدۂ سہو کرے گا۔(مراقی الفلاح، صفحہ 222، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اور قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئيں مگر گنہگار و مستحق نار ہوا کہ واجب ترک کیا، لہذا توبہ کرے اور دو رکعت پر قعدہ نہ کیا تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی“(بہار شریعت ،جلد 1،حصہ 4،صفحہ743،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مسافر نے جان بوجھ کردو کی بجائےچاررکعتیں اداکیں،تو اعادہ لازم ہے۔اس کے متعلق علامہ بدرالدین محمو د بن احمد عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قال الحسن بن حی :اذ صلی اربعا متعمدا اعادھا“یعنی حسن بن حی نے فرمایا: مسافر نے جان بوجھ کر چار رکعتیں ادا کیں، تو اس نماز کا اعادہ کرے۔(البنایۃ،جلد 3،صفحہ246،مطبوعہ:ملتان)

   بھولے سے ایسا ہوا اور سجدۂ سہو نہیں کیا ، تو اس صورت میں بھی نماز واجب الاعادہ ہے۔ اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:”اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدہ سہو نہ کیا،جب بھی اعادہ واجب ہے“ (بھار شریعت ، جلد1،حصہ 4، صفحہ  708 ، مکتبۃ المدینہ  ، کراچی)

   جان بوجھ کر سجدۂ سہو نہ کیا ،تو گناہ گار ہوگا۔اس کے متعلق ردالمحتار میں ہے:ظاھر کلامھم انہ لو لم یسجد یاثم بترک الواجب ولترک سجود السھو ۔بحر۔ وفیہ نظر بل یاثم لترک الجابر فقط اذ لا اثم علی الساھی نعم ھو فی صورۃ العمد ظاھر فینبغی ان یرتفع ھذا الاثم باعادتھایعنی فقہا کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ اگر کسی نے سجدہ سہو نہ کیا، تو ترکِ واجب اور سجدہ سہو چھوڑنے کے سبب گناہگار ہوگا۔ بحر الرائق۔لیکن اس میں غور کرنے کی حاجت ہے بلکہ وہ صرف ترکِ جابر(یعنی سجدہ سہو چھوڑنے) کے سبب گناہگار ہوگا، کیونکہ بھولے سے واجب  چھوٹنے پر تو کوئی گناہ نہیں اور سجدہ سہو چھوڑنے کا گناہ بھی عمد کی صورت میں ہے لہذا نماز کا اعادہ کرلینے سے یہ گناہ ختم جائے گا۔(ردالمحتار،جلد2،صفحہ652، مطبوعہ: کوئٹہ)

مقیم مقتدیوں  کی صورت کے تعلق سے جزئیات:

   مسافرامام نے قصداً یا سہواً چار پڑھائیں بہر صورت آخری دو رکعتوں میں جن مقیم مقتدیوں نے اس کی اقتدا کی ان کی نماز باطل ہوگئی کہ نفل والے کے پیچھے فرض ادا کرنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لو اقتدى مقيمون بمسافر وأتم بهم بلا نية إقامة وتابعوه فسدت صلاتهم لكونه متنفلا في الأخريين“یعنی اگر مقیم مقتدیوں نے مسافر کی اقتدا کی اور مسافر نے ان کو بلا نیتِ اقامت مکمل نماز پڑھا دی اور ان مقتدیوں نے اس کی اتباع کی ،تو ان کی نماز فاسد ہوگئی ، کیونکہ مسافر آخری دو رکعتوں میں نفل پڑھنے والا ہے۔ (ردالمحتار ، جلد2،صفحہ 395،مطبوعہ :کوئٹہ)

   علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”لو اتم المقتدیون صلاتھم معہ فسدت ،لانہ اقتداء المفترض بالمتنفل“یعنی اگر مقیم مقتدیوں نے اپنی نماز مسافر امام کے ساتھ ہی پوری کی ، تو فاسد ہوگئی کیونکہ یہ فرض پڑھنے والے کا نفل پڑھنے والے کی اقتداء کرنا ہے۔     (ردالمحتار، جلد2،صفحہ 736،مطبوعہ:کوئٹہ)

امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”مسافر اگر بے نیتِ اقامت چار رکعت پوری پڑھے گناہ گار ہوگا اور مقیمین کی نماز اس کے پیچھے باطل ہوجائے گی اگر دو رکعت اولیٰ کے بعد اس کی اقتداء باقی رکھیں گے“(فتاوی رضویہ، جلد8،صفحہ 271،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم