Musafir Ka Ek Hi Shehar Ke Kai Maqamat Par Qayam Karne Ka Hukum

مسافر کا ایک ہی شہر کے متعدد مقامات پر یا شہر کے قریب گاؤں میں قیام کرنے کا حکم ؟ نیزنیت ِ اقامت میں دن کا اعتبار ہوگا یا رات کا ؟

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق: مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی  نمبر:104

تاریخ  اجراء: 13جمادی الاول1443ھ/18دسمبر2021ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب ہم مدنی قافلے میں جاتے ہیں ، تو شرعی مسافت طے کرنے کے بعدمثلاً ایک شہر کے اندرپندرہ دن کی نیت کرتے ہیں ، لیکن اسی شہر میں ہم ایک جگہ نہیں رکتے بلکہ مختلف مساجد میں چلے جاتےہیں، جو ایک دوسرے سے تین تین، چار چار کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہوتی ہیں۔توکیاہم وہاں پر مقیم رہیں گے؟اسی طرح اگر شہرسے اس کے قریبی گاؤں، دیہات میں چلےجاتے ہیں،جوشہرسے شرعی مسافت پرنہیں ، تو کیا حکم ہوگا؟یاایک گاؤں میں پندرہ دن کی نیت سے چلے جاتے ہیں لیکن پھر ایک گاؤں میں نہیں رکتے  بلکہ اس کے قریب قریب دوسرے گاؤں میں بھی چلے جاتے ہیں،جوشرعی مسافت پرنہیں ، تو کیا اس دوران ہم مسافر رہیں گے، جبکہ ان مقامات میں سے کوئی بھی ہمارا وطن اصلی نہ ہو؟ تفصیل کے ساتھ ان ساری صورتوں کا جواب عطا فرما دیجئے ۔

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   (1)کوئی شخص شرعی مسافت کے ارادے سے سفر پر نکلا ہے، تو اس کے لیے کسی مقام پر مقیم ہونے یا مسافر رہنے میں نیت کرتے وقت کا اعتبار ہے ، اگر نیت کرتے وقت اس شہر یا گاؤں میں کم ازکم پورے پندرہ دن رہنے کی نیت تھی، تو مقیم ہوجائے گا،اب اگرچہ بعدمیں پندرہ دن پورا ہونے سے پہلے کسی دوسرے شہر یا گاؤں چلاجائے لیکن وہ شہر یا گاؤں شرعی مسافت پر نہ ہو، تواب مقیم ہی رہے گا، دونوں جگہ نماز پوری پڑھے گا اور نیت کرتے وقت یہ معلوم تھا کہ پورے پندرہ دن اس شہر یا گاؤں میں نہیں رہنا، بلکہ اس دوران کسی دوسرے شہر یا گاؤں چلےجانا ہے، اگرچہ وہ شہر یا گاؤں اس پہلے شہریاگاؤں سے چندکلومیٹرکے فاصلہ پرہو، توایسی صورت میں مقیم نہیں ہوگا،بلکہ مسافرہی رہے   گا۔

   (2)نیت میں رات کالحاظ ہوگایعنی ان پندرہ دنوں کی راتیں اسی شہریامقام پرگزارنے کی نیت ہو،ان کے دنوں میں کسی دوسرے مقام پرجانے کی نیت کرنے یاجانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گاجبکہ وہ دوسرامقام شرعی مسافت سے کم فاصلے پرہو۔مثلاً نیت یہ ہے کہ  لاہورمیں پندرہ دن کے لیے رہناہے لیکن معلو م ہے کہ پندرہ دنوں کے دوران ،دن ہی دن میں مریدکے یاکامونکی وغیرہ جا کردن کے دن ہی واپس لاہور آجانا ہے اور رات لاہور ہی گزارنی ہے، تو اس سے فرق نہیں پڑے گا،لاہور میں مقیم ہی رہے گا،لہذا نماز پوری پڑھے گااور اگرنیت کرتے وقت معلوم ہے کہ پندرہ دنوں کے اندرکوئی رات بھی کسی دوسرے مقام پرگزارنی ہے ،اگرچہ وہ  مقام شرعی مسافت پرنہ ہو،بلکہ اگرچہ وہ لاہور سے چندکلومیٹرکے فاصلہ پرہو، توایسی صورت میں لاہورمیں مقیم نہیں ہوگا،مسافرہی رہے گااورچاررکعتی نماز میں قصرکرے گا۔

   (3)دوسرامقام اگرشرعی مسافت پر ہو تو اب خواہ دن کے دن جائے تب بھی مقیم نہیں رہےگا۔

   (4)جس شہریاگاؤں میں پندرہ دن رہنے کی نیت کی ہے،اس کی پوری آبادی مقام واحد کی طرح ہے ،لہٰذامقیم ہونے کے لیے اس شہریاگاؤں میں صرف ایک خاص جگہ رہناضروری نہیں ہے،بلکہ اس شہریاگاؤں کی پوری آبادی میں جہاں بھی رہے گا،تواس شہرمیں رہناہی شمارہوگا۔

 اس کے مطابق جواب درج ذیل ہے:

   (1)ایک شہریاگاؤں میں پندرہ دن رہنے کی نیت کی،تواب اس شہریاگاؤں کے اندر اندر مختلف مساجدمیں جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،اگرچہ وہ مساجدتین چارکلومیٹر،بلکہ اس سے بھی زائدفاصلے پرہوں۔

   (2)اگرنیت کرتے وقت معلوم ہے کہ پندرہ دن کے اندر شہر یا گاؤں سے باہرشرعی مسافت سے کم سفر پر جانا ہے، اب اگریہ معلوم ہے کہ دن کے دن جاکرواپس آجائیں گے اور رات اسی شہریاگاؤں میں گزاریں گے ،تواب بھی اسی شہریا گاؤں میں مقیم رہیں گے ۔

   (3)اور اگریہ معلوم ہے کہ شہر یاگاؤں سے باہرشرعی مسافت سے کم پرجاناہے اور  رات شہر یا گاؤں سے باہرہی گزارنی ہے، تو اب شہریاگاؤں میں مقیم نہیں ہوں  گے،بلکہ مسافرہی رہیں گے اور دوسرے مقام پربھی اگرپندرہ دن رہنے کی نیت نہیں ،تو وہاں بھی مسافرہی رہیں گے۔

   (4)اگر دوسرے شہر یاگاؤں کی مسافت شرعی مسافت کے مطابق ہے، تو اب اگرچہ دن کے دن ہی وہاں جانا ہو، تب بھی مسافرہی رہیں  گے۔

   درمختارمیں ہے:"فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح "ترجمہ: اگر کوئی حاجی مکہ میں ذوالحج کے عشرہ میں داخل ہوا تو اس کی نیت ( برائے اقامت) درست نہیں کیونکہ اس نے منٰی اورعرفات کی طرف انہی دنوں میں جانا ہے،یہ ایسے ہی ہے جیسے اس مقام پر اقامت کی نیت کرنا،جواقامت کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور منٰی سے لوٹ کرنیت کرنا درست ہے۔(الدرالمختارمع حاشیۃ الطحطاوی ،جلد 02، صفحہ   578،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت(

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدرمیں ہے: "وفي البحر لو كان الموضعان من مصر واحد أو  قرية واحدة فإنها صحيحة لأنهما متحدان حكما ألا ترى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر"ترجمہ: اور بحر میں ہے :اگر ایک شہر یا ایک گاؤں کے دو مقام ہوں تو نیت درست ہے کیونکہ یہ دونوں حکماً ایک ہی ہیں ،کیا تو نہیں دیکھتا کہ اگراس کی طرف سفرکرکے جائے تو قصرنہیں کرتا۔)الدرالمختارمع حاشیۃ الطحطاوی، جلد 02، صفحہ   579،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت۔(

   مبسوط سرخسی، بدائع، محیط برھانی اور حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی وغیرہ میں ہے،(و اللفظ للآخر):" نوى أن يقيم الليل في إحداهما ويخرج بالنهار إلى الموضع الآخر فإذا دخل أولا الموضع الذي عزم على الإقامة فيه بالنهار لم يصر مقيما أي حتى يدخل الموضع الذي نوى المبيت فيه وإن دخل أولا الموضع الذي عزم على الإقامة فيه بالليل صار مقيما ثم بالخروج إلى الموضع الآخر لم يصر مسافرا لأن موضع إقامة المرء حيث يبيت فيه ألا ترى أنك إذا قلت لشخص أين تسكن يقول في محلة كذا وهو بالنهار يكون بالسوق"ترجمہ:کسی نے نیت کی کہ وہ رات ایک مقام پرگزارے گااوردن کودوسرے مقام پرجائے گا،پس جب وہ اولاًاس مقام میں داخل ہوکہ جہاں دن گزارنے کی نیت ہے تووہ مقیم نہیں ہوگایعنی جب تک وہ اس مقام میں نہ چلاجائے جہاں رات گزارنے کی نیت ہے اوراگر اولاًاس مقام میں گیاکہ جہاں اس نے رات گزارنے کی نیت کی ہے، تووہ مقیم ہوجائے گاپھردوسرے مقام پرجانے سے وہ مسافرنہیں ہوگا،کیونکہ آدمی کی جائے اقامت وہی ہوتی ہے ، جہاں وہ رات گزارتاہے ،کیا تو نہیں دیکھتاکہ جب توکسی شخص سے پوچھتاہے کہ تو کہاں رہائش اختیارکیے ہے ،تو وہ کہتاہے کہ فلاں محلے میں ،حالانکہ وہ دن میں بازارمیں ہوتا ہے ۔ )حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ، صفحہ  426،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت(

   ردالمحتارمیں ہے: "إنشاء السفر من وطن الإقامة مبطل له وإن عاد إليه" ترجمہ : وطن اقامت سے سفر شرعی اختیارکرنا ، وطن اقامت کوباطل کردیتاہے  ، اگرچہ اس کی طرف واپس لوٹ آئے ۔ )ردالمحتارمع الدرالمختار، جلد 02،صفحہ 740،مطبوعہ کوئٹہ (

   فتاویٰ رضویہ میں ہے :”الٰہ آباد تمہارا وطن اصلی نہیں۔۔۔ جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہر نے کی نیت الٰہ آبادمیں کرلی ہے، تو اب الٰہ آبادوطن اقامت ہوگیا نماز پوری پڑھی جائے گی، جب تک وہاں سے تین منزل کے ارادہ پر نہ جاؤ اگر چہ ہر ہفتہ پر، بلکہ ہرروز الٰہ آبادسے کہیں تھوڑی تھوڑی دور یعنی چھتیس ۳۶ کوس سے کم باہر جانا اور دن کے دن واپس آنا ہو، جبکہ نیت کرتے وقت اس پندرہ دن میں کسی رات دوسری جگہ شب باشی کا ارادہ نہ ہو ،ورنہ وہ نیت پورے پندرہ دن کی نہ ہوگی ،مثلاً  الٰہ آبادمیں پندرہ روز ٹھہر نے کی نیت کی او رساتھ ہی یہ معلوم تھاکہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہوگا ،تو یہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفر ہی رہا اگر چہ دوسری جگہ الٰہ آبادکے ضلع میں ،بلکہ اس سے تین چار ہی کوس کے فاصلہ پر ہو، اور اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگر چہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا، تو اقامت صحیح ہوگئی نماز پوری پڑھی جائے گی، جبکہ وہ دوسری جگہ الٰہ آبادسے چھتیس ۳۶ کوس یعنی ستاون ۵۷ ،اٹھاون ۵۸ میل کے فاصلے پر نہ ہو غرض قیام کی نیت کرتے وقت ان خیالوں کا اعتبار ہے بعد کو جوپیش آئے اُس کا لحاظ نہیں مثلاً  پندرہ رات پورے کا قیام ٹھہرالیا اور اس کے بعد اتفاقاً چندراتوں کے لئے اورجگہ جانا ہوا جو الٰہ آبادسے تین منزل کے فاصلہ پر نہیں اگر چہ دس بیس بلکہ چھپن میل تک ہو سفر نہ ہوگا اس مقامِ دیگر میں بھی نماز پوری پڑھنی ہوگی اور الٰہ آبادمیں بھی ان سب صورتوں کو خوب غور سے سمجھ لو۔“)فتاوی رضویہ،جلد 08، صفحہ  251،252، مطبوعہ رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم