Mutafarriq Tor Par 92Km Se Ziada Safar Karne Wala Musafir Nahi

متفرق طور پر 92 کلو میٹر سے زائد سفر کرنے والا مسافر نہیں

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13253

تاریخ اجراء: 15 رجب المرجب 1445 ھ/27 جنوری 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نےایک کام کے سلسلے میں اپنے شہر سے 50 کلو میٹر دور دوسرے شہر کا سفر کیا،آگے جانے کا ارادہ نہیں تھا  وہیں پر  کام تھا لیکن وہاں کام نہیں ہوا۔  اس شہر میں رات گزاری پھر اگلے دن اس سے آگے50 کلو میٹر سفر کر کے دوسرے شہر گیا۔ گھر سے ٹوٹل 100 کلو میٹر سفر کیا ،اب وہاں پر سفر کی نماز پڑھوں گا یا پوری نماز ؟ پھر  اگر وہاں سے ڈائریکٹ اپنے شہر جاتا ہوں تو نماز پوری پڑھوں گا یا قصر؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی بھی شخص کےمسافر ہونےکے لئے ایک شرط یہ ہے کہ وہ جب اپنے شہر سے نکلے، تو اس کا کم سے کم مسافتِ سفر (یعنی 92 کلو میٹر) سفر کا ارادہ ہو، اگر وہ 92 کلو میٹرسے کم مسافت پر واقع شہرکے ارادہ سے نکلااور اس شہر پہنچ کر پھر وہاں سے آگے 92 کلو میٹرسے کم مسافت پر واقع شہر کے لئے نکلا ، تو مسافر نہیں ہوگا اگرچہ دونوں مسافتیں ملا کر 92 کلومیٹر سے زائد ہوجائیں۔اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ جب آپ کام کے سلسلے میں اپنے شہر سے 50 کلو میٹر سفر کرکےایک شہر گئے  پھر وہاں کام نہ ہونے کی صورت میں آگے مزید 50 کلومیٹر سفرکر کے دوسرے شہر گئے، تو اس صورت میں آپ مسافر نہیں ہوئے لہٰذاگھر سے لے کر  ان دونوں مقامات پر آپ پوری نماز ادا کریں ، قصر نہیں کریں گے۔

   واضح رہے کہ یہ حکم جاتے ہوئے  نماز ادا کرنے کا ہے  البتہ اگر اس دوسری جگہ سے واپسی  ڈائریکٹ اپنے شہر جانا ہو اور دونوں کے درمیان  92 کلومیٹر  یا اس سے زائد مسافت ہے، تو اب اس شہر اور اس کے مضافات سے نکلنے کے بعد آپ مسافر کہلائیں گے اور اپنے شہر پہنچنے سے پہلے درمیان میں کوئی چار رکعت والی فرض نماز آتی ہے، تو اس کو ادا کرتے ہوئے قصر کریں گے۔

   بدائع الصنائع میں مسافر ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے علامہ ابو بکر کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”والثاني : نية مدة السفر لأن السير قد يكون سفرا وقد لا يكون ؛ لأن الإنسان قد يخرج من مصره إلى موضع لإصلاح الضيعة ثم تبدو له حاجة أخرى إلى المجاوزة عنه إلى موضع آخر ليس بينهما مدة سفر ثم وثم إلى أن يقطع مسافة بعيدة أكثر من مدة السفر لا لقصد السفر فلا بد من النية للتمييز “ یعنی دوسری شرط یہ ہے کہ مدتِ سفر کی نیت ہو، کیونکہ چلنا کبھی سفرِ شرعی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا ، کیونکہ انسان کبھی اپنے شہر سےزمین کی اصلاح کے لئے کسی جگہ کی طرف نکلتا ہے پھر اس کو وہاں سے آگے دوسری جگہ جانے کی الگ حاجت درپیش ہوتی ہے جن دونوں کے درمیان مدتِ سفر نہیں پھر وہاں سے اور آگے نکلتا ہے یہاں تک کہ مدتِ سفر سے بھی زیادہ مسافتِ بعیدہ طے کرجاتا ہے  حالانکہ سفر کا ارادہ  نہیں ہوتا، تو اس لئے امتیاز کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 94، مطبوعہ:بیروت) 

   درمختارو حاشیۃ الطحطاوی  میں ہے:واللفظ فی الھلالین للدر المختار:”(من طاف الدنیا بلا قصد)ای ثلاثۃ تامۃ بان قصد بلدۃ بینہ وبینھا یومان للاقامۃ بھا  فلما بلغھا بدا لہ ان یذھب الی بلدۃ بینہ وبینھا یومان وھلم جرا (  لم یقصر)“یعنی جس نے دنیا گھوم لی تین کامل دن کے قصد کے بغیر اس طرح کہ اس نے ایک شہر کا قصد کیاوہاں رہنے کے لئے اس کے اور اس شہر کے درمیان دو دن کی مسافت ہے ،پھر جب یہ وہاں پہنچا  تو اس کو ایک دوسرے شہر جانے کی حاجت ہوئی اس کے اور اس شہر کے درمیان بھی دو دن کی مسافت ہے اور اسی طرح چلتا رہا، تو نماز میں قصر نہیں کرے گا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 2،صفحہ 570، مطبوعہ:بیروت)

   رد المحتار والبحر الرائق میں ہے:”لو طاف الدنيا من غير قصد إلى قطع مسيرة ثلاثة أيام لا يترخص ، وعلى هذا قالوا : أمير خرج مع جيشه في طلب العدو ، ولم يعلم أين يدركهم فإنهم يصلون صلاة الإقامة في الذهاب ، وإن طالت المدة وكذلك المكث في ذلك الموضع أما في الرجوع ، فإن  كانت مدة سفر قصروا “یعنی تین دن کی مسافت طے کرنے کا قصد کئے بغیر اگر دنیا گھوم لی، تو اسے (مسافر والی) رخصت نہیں ملے گی۔اور اسی بنا پر فقہا نے فرمایا:حاکم اپنے لشکر کے ساتھ دشمن کی تلاش میں نکلا اور اسے معلوم نہیں کہ وہ دشمنوں کو کہاں تک پالے گا، تو وہ جانے میں مقیم کی نماز پڑھیں گے اگر چہ مدت طویل ہوجائے اور اسی طرح اس جگہ میں ٹھہرنا طویل ہوجائے ، البتہ واپسی میں اگر مدتِ سفر ہو ،تو قصر کریں گے۔ (البحر الرائق،جلد2،صفحہ 139، مطبوعہ:بیروت)

   حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:”لو قصد السياحة أو ذهب صاحب جيش لطلب عدو أو ذهب لطلب آبق أو غريم ولم يعلم أين يدركه أتم في الذهاب وفي موضع المكث وإن طالت المدة أما في الرجوع فإن كانت مدة سفر قصر وإلا لا “یعنی اگر سیاحت کا قصد ہو یا لشکر دشمن کی تلاش میں گیا یا بھگوڑے یا مقروض کی تلاش کے لئے گیا اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں پائے گا، تو جانے میں اور ٹھہرنے کی جگہ میں نماز پوری پڑھے گا اگرچہ مدت طویل ہوجائے، بہر حال واپسی میں اگر سفر کی مدت ہو، تو قصر کرے گا ورنہ نہیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 422۔423، مطبوعہ:بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:”سفر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں سے چلا وہاں سے تین دن کی راہ کا ارادہ ہو اور اگر دو دن کی راہ کے ارادے سے نکلا وہاں پہنچ کر دوسری جگہ کا ارادہ ہوا کہ وہ بھی تین دن سےکم کا راستہ ہے ، یوہیں ساری دنیا گھوم آئے مسافر نہیں“(بہارِ شریعت،جلد1،صفحہ 743،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم