Namaz e Taraweeh Parhna Farz, Wajib Ya Sunnat Hai? Aur Taraweeh Ki Qaza Ka Hukum

نماز تراویح فرض واجب یا سنت ہے ؟ نیز تراویح کی قضا کا حکم

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7804

تاریخ اجراء:17رمضان المبارک1443ھ19اپریل2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نمازِ تراویح پڑھنے کا کیا حکم ہے؟یعنی فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہےیانفل ہے؟ اور اگرنہ پڑھی ،تو کیا قضا لازم ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیس رکعات نمازِ تراویح ہرعاقل وبالغ مسلمان مردوعورت کے لیےسنتِ مؤکدہ ہےاورسنت مؤکدہ کاحکم یہ ہے کہ اسے کبھی کبھارچھوڑنے والامرتکب ِ اساء ت اورچھوڑنے کی عادت بنانے والاگنہگار ہےاورنمازِ تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تین راتیں نمازِ تراویح کی امامت فرماکربخوفِ فرضیت ترک فرمادی،پھرامیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے باقاعدہ حُفَّاظ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو امام مقررفرماکر لوگوں کوان کے پیچھے نمازِ تراویح پڑھنے کاحکم ارشادفرمایا ، جس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عمل کیا،پھر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی اپنے دورِخلافت میں اس عمل پر مواظبت فرمائی،تویوں اکثر خلفائے راشدین کے عمل کی وجہ سے یہ سنت مؤکدہ بن گئی ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ترجمہ:تم پرمیری اورخلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔(سنن ابوداؤد،باب فی لزوم السنہ،ج02،ص290،مطبوعہ لاھور)

   سنن کبریٰ میں ہے:’’عن السائب بن یزیدقال کانوایقومون علی عھد عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھررمضان بعشرین رکعۃ قال وکانوا یقرءون بالمئین وکانوایتوکؤن علی عصیھم فی عھدعثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ من شدۃ القیام‘‘ترجمہ:سائب بن یزیدبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دورمیں صحابہ کرام رمضان کے مہینے میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے اوروہ سو(یعنی سو سے زائد )آیتوں والی سورتیں پڑھتے تھے اورحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دورمیں شدت ِ قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگاتے تھے۔ (السنن الکبری،ج02،ص496،مطبوعہ نشرالسنۃ ،ملتان)

   سنن کبریٰ میں ہے:’’عن عبدالرحمن السلمی عن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال دعاالقراء فی رمضان فامرمنھم رجلایصلی بالناس عشرین رکعۃ قال وکان علی رضی اللہ عنہ یوتربھم وروی ذلک من وجہ اخرمن علی‘‘ترجمہ:حضرت عبدالرحمن سلمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا اوران میں سے ایک شخص کوبیس رکعت تراویح پڑھانے کاحکم دیااورخودحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان کو وترپڑھاتے تھے۔یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اوربھی اسانیدسے مروی ہے۔(السنن الکبری،ج02،ص496،مطبوعہ نشرالسنۃ ،ملتان)

   امام ترمذی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’واکثراھل العلم علی ماروی عن علی و عمروغیرھمامن اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عشرین رکعۃ‘‘ ترجمہ:اکثراہل علم کامذہب بیس رکعت تراویح ہے، جو حضرت علی،عمراورنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کے دیگراصحاب سے مروی ہے۔(جامع ترمذی،صفحہ139،مطبوعہ نورمحمدکارخانہ )

   اکثرخلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کے بارے میں الاختیار لتعلیل المختار ، در مختار ، فتاویٰ عالمگیری اور بحر الرائق میں ہے: واللفظ للدر المختار:”التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال و النساء اجماعاً ‘‘ ترجمہ:تراویح خلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کے لیے بِالْاِجماع سنتِ مؤکدہ ہے۔(درمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل،ج02،ص597،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ بالاعبارت کے تحت ردالمحتارمیں ہے:’’أی:أکثرھم،لأن المواظبۃ علیھاوقعت فی أثناء خلافۃ عمررضی اللہ تعالی عنہ ،ووافقہ علی ذلک عامۃ الصحابۃ ومن بعدھم الی یومناھذابلانکیر‘‘ترجمہ:یعنی اکثرخلفائے راشدین کی مواظبت کی وجہ سے کیونکہ اس پرمواظبت حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دوران ہوئی اورسب صحابہ نے ان کی اس پرموافقت فرمائی اوران کے بعدسے آج تک کسی نے انکارنہ کیا۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصلاۃ ،ج02،ص597،مطبوعہ کوئٹہ)

   اورتارکِ تراویح کاحکمِ شرعی بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن  لکھتے ہیں:’’سیدعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تین شب تراویح میں امامت فرماکربخوفِ فرضیت ترک فرمادی،تواس وقت تک وہ سنت مؤکدہ نہ ہوئی تھی،جب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے اِجرافرمایا اورعامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم  اس پرمجتمع ہوئے، اس وقت سے وہ سنت مؤکدہ ہوئی،نہ فقط فعلِ امیرالمؤمنین سے،بلکہ ارشاداتِ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  سے ۔۔۔۔۔اب ان کاتارک ضرورتارکِ سنتِ مؤکدہ ہے اورترک کاعادی فاسق وعاصی(گنہگارہے)۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج07،ص471،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   اورتراویح کی قضانہ ہونے کے بارے میں علامہ طاہربن عبدالرشیدرحمۃ اللہ تعالی علیہ ’’خلاصۃ الفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں:’’والصحیح ان التراویح لایقضی‘‘ترجمہ:اورصحیح یہ ہے کہ تراویح کی قضانہیں کی جائے گی۔ (خلاصۃ الفتاوی،کتاب الصلاۃ،الفصل الثالث فی التراویح،ج01،ص63،مطبوعہ  کوئٹہ)

   اورجوتراویح فوت ہوجائیں ان کی قضا کے نہ ہونے کے بارے میں علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  لکھتے ہیں:’’ولاتقضی اذا فاتت أصلا‘‘ترجمہ:اورتراویح فوت ہوجائیں،توان کی قضا اصلاً نہیں۔ (درمختارمع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب الوتروالنوافل ،ج02،ص598،مطبوعہ  کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم