Namaz Ke Agey Se Guzar Gaya To Kya Is Ghalati Ke Izale Ke Liye Wapis Ana Hoga?

نماز ی کے آگے گزرگیا، تو اب کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6941

تاریخ اجراء:04رمضان المبارک1443ھ/06اپریل 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں کہ بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی بندہ لا علمی میں کسی نمازی کے آگے سے گزر جائے، تو جونہی  اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرا ہے، اس کا ازالہ کرنے کے لیے نمازی کو دوبارہ کراس کرتا ہے اور جدھر سے آیا تھا، اس جانب چلا جاتا ہے، تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس طرح ازالہ کرنا شرعاً درست ہے؟ اور اگر کوئی کر لے، تو اس پر کوئی حکم عائد ہو گا، نیز اس سے نمازی کی نماز پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جواب جاننے سے قبل یہ شرعی حکم ذہن نشین کر لیجئے کہ کوئی شخص اگر کسی مکان یا مسجدِ صغیر (یعنی چھوٹی مسجد اور آج کل عام مساجد، مسجدِ صغیر ہی کے حکم میں ہیں) میں نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے آگے سترہ نہ ہو، تو دوسرے شخص کا دیوارِ قبلہ تک اس کے آگے سے گزرنا، ناجائز و گناہ ہے اور اگر نمازی صحراء یا مسجدِ کبیر (یعنی بڑی مسجد، جیسے مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی شریف کہ فی زمانہ اپنے عظیم رقبے کی وجہ سے مسجدِ کبیر ہیں) میں نماز ادا کر رہا ہو، تو بغیر سترہ موضعِ سجدہ (قیام کی حالت میں سجدہ کی جگہ کی طرف نظر کریں، تو جتنی دور تک نگاہ احاطہ کرے، اس) تک گزرنا، جائز نہیں، البتہ موضعِ سجدہ کے باہر سے گزر سکتے ہیں۔نیز اگر کوئی شخص لا علمی میں نمازی کے آگے سے گزر گیا، تو وہ گنہگار نہیں ہو گا۔

     اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ جس صورت میں نمازی کے آگے سے گزرنے کی اجازت نہیں، اگر کوئی شخص لا علمی میں اس کے آگے سے گزر گیا، تب تو وہ گنہگار نہیں ہو گا، لیکن اگر اس نے نمازی کو دوبارہ کراس کیا، تو  گنہگار ہو گا، اگرچہ وہ اپنے گمان کے مطابق ازالہ (غلطی کو درست) کرنے کے لیےپلٹے۔ لہذا اگر کسی سے سہواً یا قصداً نمازی کے آگے سے گزرنے والی غلطی سر زد ہو جائے، تو وہ ازالے کے لیے ہرگز واپس نہ پلٹے کہ سہواً گزرنے میں تو کوئی شرعی گرفت نہیں، لہذا ازالہ کی کچھ حاجت نہیں، لیکن دوبارہ کراس کرنے پرگناہ کا مرتکب ہو گا۔ نیز بہر صورت نمازی کے آگے سے گزرنے کے سبب نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، نماز جاری (continue)رہتی ہے۔

     نمازی کے آگے سے گزرنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ لو يعلم المار بين يدی المصلی ماذا عليه، لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه‘‘ترجمہ: نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر جان لیتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے، تو وہ چالیس(سال)تک وہاں کھڑے رہنا گزرنے سے بہتر خیال کرتا۔ (صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،باب اثم المار بین یدی المصلی،جلد1، صفحہ 73، مطبوعہ کراچی)

     در مختار میں ہے:’’(ومرور مار فی الصحراءاو فی مسجد كبير بموضع سجوده)فی الاصح (او) مروره (بين يديه) الى حائط القبلة(فی)بيت و(مسجد)صغير،فانه كبقعة واحدة (مطلقا)۔۔(وان اثم المار)‘‘ ترجمہ: اور صحراء یا مسجدِ کبیر میں اصح قول کے مطابق موضع ِ سجود سےاورگھر یا مسجدِصغیرمیں دیوارِ قبلہ تک گزرنا کہ یہ ایک ہی حصے کے حکم میں ہے مطلقاً نماز کو فاسد نہیں کرتا،اگرچہ گزرنے والا گنہگار ہو گا۔(در مختار مع الردالمحتار ،کتاب الصلاۃ،جلد2،صفحہ479تا81،مطبوعہ کوئٹہ)

     ’’وان اثم المار‘‘کے تحت فتاوی شامی میں ہے:’’ان لم يكن للمصلی سترة‘‘ترجمہ:(گزرنے والا اس وقت گنہگار ہو گا)  جب نمازی کے آگے سترہ نہ ہو ۔(فتاوی شامی ،کتاب الصلاۃ،جلد2،صفحہ481،مطبوعہ کوئٹہ)

     امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’نماز اگرمکان یاچھوٹی مسجد میں پڑھتا ہو ،تو دیوارقبلہ تک نکلنا جائز نہیں جب تک بیچ میں آڑ نہ ہو، اور صحرایا بڑی مسجد میں پڑھتاہو ،توصرف موضع سجود تک نکلنے کی اجازت نہیں،اس سے باہرنکل سکتاہے،موضع سجود کے یہ معنی ہیں کہ آدمی جب قیام میں اہلِ خشوع وخضوع کی طرح اپنی نگاہ خاص جائے سجودپرجمائے ،یعنی جہاں سجدے میں اس کی پیشانی ہوگی ،تونگاہ کاقاعدہ ہے کہ جب سامنے روک نہ ہو تو جہاں جمائے وہاں سے کچھ آگے بڑھتی ہے،جہاں تک آگے بڑھ کر جائے وہ سب موضع میں ہے، اس کے اندرنکلنا حرام ہے ،اور اس سے باہرجائز۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ254، رضا فا­ؤنڈیشن،لاھور)

     مسجدینِ حرمین، مسجد کبیر میں داخل ہیں۔  شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف کے پندرہویں فقہی سیمینار میں ہے: ’’باتفاقِ رائے یہ طے ہوا ہے کہ اب مسجدِ نبوی اور مسجدِ حرام ، مسجدِ کبیر ہو گئی ہیں۔‘‘(فیصلہ پندرھواں ،فقھی سیمینار، شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف)

نمازی کے آگے سے سہواً گزرنے والا گنہگار نہیں اور بہر صورت اس سے نماز میں خلل واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ فتاوی اجملیہ میں اسی طرح کا سوال ہوا، تو جوابا ارشاد فرمایا: ’’نمازی کے سامنے سے سہواً گزرنے والے تو گنہگار ہی نہیں۔ ہاں! قصداًگزرنے والا سخت گنہگار ہے، بہر صورت اس سے نمازی کی نماز باطل نہیں ہوئی۔‘‘(فتاوی اجملیہ، جلد 2، صفحہ 25، شبیر برادرز،  لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم