Namaz Ke Baad Buland Awaaz Se Zikr Karna

نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر:WAT-1690

تاریخ اجراء: 08ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/29مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟   بعد میں  آنے والے بعض لوگ  کہتے ہیں کہ اُنہیں بقیہ نماز پڑھنے میں بلند ذکر کی وجہ سے آزمائش کا سامنا ہوتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازکے بعدبلندآوازسے  ذکرکرناقرآن پاک اور احادیث  طیبہ صحیحہ سے ثابت ہے ۔لیکن  ضروری ہے کہ  اتنی بلند آواز نہ ہو کہ  بقیہ نماز پڑھنے والوں کو  آزمائش کا سامنا ہو یا وہ      قراءت ہی بھول جائیں۔  اس انداز میں بلند ذکر کرنے کی ہرگز  اجازت نہیں،جس سے کسی نمازی وغیرہ کو تکلیف ہو  ۔

نمازکے بعدبلندآوازسےذکرکے متعلق جزئیات:

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:( فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِکُمْ )ترجمہ کنز الایمان:پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ  کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔ (سورۃ النساء،پ05، آیت103)

   اس کے تحت صدرالافاضل حضرت علامہ مولانامفتی محمدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ خزائن العرفان میں  تحریر فرماتے ہیں :"مسئلہ: اس سے نمازوں کے بعد بغیر فصل کے کلمہ توحید پڑھنے پر استدلال کیا جاسکتا ہے جیسا کہ مشائخ کی عادت ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ مسئلہ: ذکر میں تسبیح، تحمید، تہلیل، تکبیر، ثناء، دعا سب داخل ہیں ۔" ( خزائن العرفان ،سورۃ النساء،پ05،آیت103)

   صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں روایت ہے (واللفظ للاول)''أن ابن عباس رضی اللہ عنہما، أخبرہ:أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقال ابن عباس: کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ''ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے اپنے غلام کوبتایاکہ لوگوں کے  فرض نمازسے فارغ ہونے کے وقت بلندآوازسے ذکرکرنانبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں تھااورحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے بتایامیں جب ذکرسنتاتھاتوجان لیتاتھاکہ لوگ نمازسے فارغ ہوچکے ہیں ۔ (صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب الذکربعدالصلاۃ،ج1،ص168،دارطوق النجاۃ)

   بخاری شریف کی عربی شرح فتح الباری لابن رجب میں نمازکے بعدخاص تعدادیعنی تین مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے کی فضیلت بھی مذکورہے چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن رجب حنبلی علیہ الرحمۃنقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”((من قال في دبر الصلوات، وإذا أخذ مضجعه: اللہ أكبر كبيراً، عدد الشفع والوتر، وكلمات الله الطيبات المباركات - ثلاثاً -، ولا إله إلا اللہ - مثل ذلك - كن له في القبر نوراً، وعلى الحشر نوراً، وعلى الصراط نوراً، حتى يدخل الجنة)) “ترجمہ:جونمازکے بعداورسونے سے پہلے "اللہ اکبرکبیراَ"جفت اورطاق عددمیں اور"كلمات اللہ الطيبات المباركات"تین باراور"لا إله إلا اللہ" تین بارپڑھے گاتویہ اذکار اُس کے لیے قبرمیں نور،حشرمیں نوراورپُل صراط پرنورہوں گے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ (فتح الباری لابن رجب،کتاب الصلوٰۃ،باب الذکربعدالصلوٰۃ،ج7،ص397،مکتبۃالغرباء الاثریۃ، المدینۃ النبویۃ)

   اوریہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں  حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سےموقوفامروی ہے"حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا مسعر، عن محمد بن عبد الرحمن، عن طيسلة، عن ابن عمر، قال: " من قال دبر كل صلاة، وإذا أخذ مضجعه: اللہ أكبر كبيرا عدد الشفع، والوتر، وكلمات اللہ التامات الطيبات المباركات، ثلاثا، ولا إله إلا اللہ مثل ذلك، كن له في قبره نورا، وعلى الجسر نورا، وعلى الصراط نورا حتى يدخلنه الجنة أو يدخل الجنة "(ترجمہ پہلی روایت میں گزرچکا۔)(مصنف ابن ابی شیبہ،ج06،ص32، مکتبۃ الرشد،الریاض)

بلندآوازسےذکرکرنے میں کسی  نمازی وغیرہ کوتکلیف نہ ہو،اس حوالے سے جزئیات:

   مسند احمد کی حدیث پاک ہے:’’عن علي، قال: نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أن يرفع الرجل صوته بالقرآن قبل العشاء وبعدها، يغلط أصحابه  وھم یصلون‘‘ ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے  منع فرمایا کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے اوربعد  بلند آوازسے تلاوت کرےکہ وہ اپنے ساتھی نمازیوں کو مغالطہ میں ڈال دے ۔(مسند احمد،جلد2،صفحہ90،رقم الحدیث663،مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

      فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ:" ایک یا   زیادہ شخص نماز پڑھ رہے ہیں یا بعدِ جماعت نماز پڑھنے آئے ہیں اور ایک یا کئی لوگ بآوازِ بلند قرآن یا وظیفہ یعنی کوئی قرآن کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں یہاں تک کہ مسجد بھی گونج رہی ہے تو اس حالت میں کیا حکم ہونا چاہئے کیونکہ بعض دفعہ آدمی کا خیال بدل جاتا ہے اور نماز بھول جاتاہے؟"

   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:’’ جہاں کوئی نماز پڑھتا ہو یا سوتا    ہو کہ بآواز پڑھنے سے اُس کی نماز یا نیند میں خلل آئے گا وہاں قرآن مجید و وظیفہ ایسی آواز سے پڑھنا منع ہے، مسجد میں جب اکیلا تھا اور بآواز پڑھ رہاتھا جس وقت کوئی شخص نماز کے لئے آئے فوراً                                 آہستہ ہوجائے ‘‘(فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ100،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم