Namaz Ke Doran Nafli Roze Ki Niyat Ki To Kya Hukum?

نماز کے دوران نفلی روزے کی نیت کی، تو کیا حکم  ہے؟

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7933

تاریخ اجراء:15ذیقعدۃ الحرام1443ھ/15جولائی2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ فجر کی نماز ادا کرتے ہوئے نمازکی حالت میں آج کےنفلی روزے کی نیت کر لی ،تو کیا یہ روزے کی نیت درست ہوگی ؟جبکہ اس سے پہلے روزے کے منافی کوئی عمل یعنی کھایا،پیاوغیرہ نہ ہو۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز ِفجرپڑھتے ہوئے نفلی روزے کی نیت  کرنااگرچہ درست ہے ،لیکن افضل یہ ہے کہ جس عبادت میں مصروف ہو،اسی کی طرف خشوع وخضوع کے ساتھ متوجہ رہے،اس سے ہٹ کر کسی دوسری طرف مشغول نہ ہو۔ شریعت کا اصول ہے کہ دورانِ نماز جس  دوسری عبادت کی نیت کی جائے،اگرتو وہ دوسری  عبادت ایسی ہو کہ اس کی نیت کے ساتھ کوئی متصل عمل کرنا ضروری نہ ہو، تو ایسی عبادت کی نیت درست ہو جائے گی اور اگر نیت کے ساتھ متصل عمل ضروری ہو، تونیت درست نہیں ہوگی اور عمل کی صورت میں نماز ہی باطل ہو جائے گی۔

   نیت کے ساتھ عمل ضروری نہ ہونے کی امثلہ:

   (1-2)نماز کے دوران اعتکاف اور سجدہ تلاوت کی نیت کرنا درست ہے،کیونکہ ان کی نیت کے ساتھ کوئی عمل کرناضروری نہیں ہوتا، فقط دل میں ارادہ کرنے سے ہی نیت ہو جاتی ہے۔

   (3) مسافردورانِ نماز اقامت کی نیت کر لے ،تو مقیم ہو جائے گا،بشرطیکہ دیگرشرائط بھی پائی جائیں،کیونکہ اقامت کہتے ہیں ترکِ سفر کو  اور ترکِ سفر،ترکِ عمل ہے،لہذا عمل کے ضروری نہ ہونے کی وجہ سے نماز میں نیت درست ہو جائے گی۔

   نیت کے ساتھ متصل عمل ضروری ہونے کی امثلہ:

   (1)حج یا عمرے کا احرام صحیح ہونے کے لیے نیت کے ساتھ زبان سے تلبیہ کہنا بھی ضروری ہے،لہذا دورانِ نماز فقط دل میں احرام کی نیت کی، تو یہ درست نہیں اور اگر نیت  کےساتھ تلبیہ کہہ دیا ،تو نماز باطل ہو جائے گی۔

   (2)ایک نماز کے دوران دوسری نماز کی طرف منتقل ہونے کے لیے نیت کے ساتھ تکبیر کہنا ضروری ہے،محض نیت کافی نہیں ،لہذا اگر دوسری نماز کی طرف منتقل ہوتے ہوئے نیت کے ساتھ تکبیر بھی کہہ دی توپہلی نماز باطل ہو جائے گی ،کیونکہ یہاں نیت کے ساتھ عمل ضروری ہے۔

   لہذا نماز کے دوران روزےکی نیت کے لیےعمل ضروری نہ ہونے کی بنا پر روزے کی نیت کرنا درست ہوگا، البتہ دورانِ نماز  دل میں ہی نیت کی  ہو ، زبان سے نیت کے الفاظ نہ کہے ہوں  ، وگرنہ نماز ٹوٹ جائے گی ۔

   نماز کے دوران کسی دوسری عبادت کی نیت کرنے کے بارے میں علامہ ابن نجیم مصری حنفی علیہ الرحمۃ  لکھتے ہیں:ھل تصح نیۃ عبادۃ و ھو فی عبادۃ اخری؟ قال فی القنیۃ: نوی فی صلوۃ مکتوبۃ او نافلۃ الصوم، تصح نیتہ ولا تفسد صلاتۃ“ ترجمہ:کیا عبادت کی نیت کرنا درست ہے  ،اس حال میں کہ وہ (نیت کرنے والا ) کسی دوسری عبادت میں (مشغول ) ہو ؟ قنیہ میں فرمایا : کسی نے فرض یا نفل نماز میں روزہ کی نیت کی،تو اس کی نیت درست ہے اوراس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔(الاشباہ و النظائر،ص38،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ عبارت کے تحت التحقیق الباھر میں ہے:”و اما الصلوۃ فان کان المنوی فیھا مما تصح فیہ النیۃ بلاحاجۃ الی مقارنۃ عمل من اعمالہ کالصوم تصح تلک النیۃ فلو نوی فی الصلوۃ المغرب مثلاً صوم غد من رمضان ولم تحضرہ النیۃ الی طلوع الفجر صح صومہ بتلک النیۃ۔۔۔۔وان کان المنوی فیھا مما یقتضی مقارنۃالنیۃ بفعل من افعالہ کالزکاۃ والحج فلاتصح  نیتہ،واما اذا نوی صلاۃ اخری فیھا فان نوی علی ان یودیھا معھا فلاتصح تلک النیۃوان کانت للانتقال وان کبر للثانیۃ انتقل فی المغایرۃ بطلت الاولی والا فلا وان نوی ان یؤدھا بعدالاولی فیصح ان لم یات بعد تمام الاولی بعمل مناف للصلاۃ کما تقدم“ترجمہ:اور اگر نماز میں کسی ایسی عبادت کی نیت کی کہ جس کی نیت درست ہونے کے لیے اس کے اعمال میں سے کسی عمل کے ساتھ نیت ملے ہونے کی حاجت نہیں ہے،جیسے روزہ تو وہ نیت درست ہے، لہذا اگر مثال کے طور پر مغرب کی نماز میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی اور طلوع فجر کے وقت نیت حاضر نہیں، تو اس نیت کے ساتھ ہی روزہ درست ہو گیااور اگر نماز میں کسی ایسی عبادت کی نیت کی جو یہ تقاضا کرتی ہے کہ نیت اس کے افعال میں سے کسی فعل کے ساتھ ملی ہو، جیسے زکاۃ اور حج (حج کی نیت کےساتھ تلبیہ کہناضروری)تو اس کی نیت درست نہ ہوئی،جب نماز میں کسی دوسری نماز کی نیت کی، تو اگر یہ نیت کی کہ و ہ اس کے ساتھ ہی اسے ادا کرے گا ،تونیت درست نہ ہوئی اور اگر ایک نماز سے دوسری نمازکی طرف منتقل ہونے  کی نیت کی اور دوسری نماز کے لیے تکبیر کہی، تو وہ دوسری نماز میں منتقل ہوگیا اور پہلی باطل ہو گئی اور اگر تکبیر نہ کہی ،تو دوسری میں منتقل نہ ہوا اور اگر یہ نیت کی کہ پہلی کے بعد اسے ادا کرے گا ،تو یہ نیت درست ہے،جبکہ پہلی نماز مکمل کرنے کے بعد نماز کے منافی کوئی کام نہ کرے،جیساکہ پہلے گزر گیا۔(التحقیق الباھرشرح الاشباہ والنظائر،ج1،ص189،مخطوطہ)

   نماز کے دوران  روزے کی نیت درست ہونے کے بارے میں درمختار میں ہے:”لو نوی فی صلاتہ الصوم صح “ترجمہ :  اگر نمازی نے نماز کے اندر روزے کی نیت کی تو اس کا نیت کرنا صحیح ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الصلاۃ ، ج 1 ، ص 441،مطبوعہ  دار الفکر ،بیروت )

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت دورانِ نمازاعتکاف کی نیت بھی درست ہونے کے بارے میں ردالمحتار میں ہے:”( الصوم) و نحوہ الاعتکاف و لکن الاولی عدم الاشتغال بغیر ما ھو فیہ“ ترجمہ :  (روزے کی نیت کرنا درست ہے ) اور اسی طرح دورانِ نماز اعتکاف کی نیت کرنا بھی درست ہے ، لیکن  بہتر اور افضل یہ ہے کہ جس عبادت  میں مصروف ہے(یعنی نماز ) اس سے ہٹ کر کسی اور طرف مشغول نہ ہو ۔(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلاۃ ، ج 1 ، ص 441، مطبوعہ دار الفکر، بیروت )

   دورانِ نماز سجدہ تلاوت کی نیت درست ہونے کے بارے میں موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:”من أراد السجود للتلاوة وهو في الصلاة إماما كان أو منفردا أو مأمومانوى السجود بالقلب من غير تلفظ “ترجمہ:جس نے نماز میں سجدہ تلاوت کرنے کا ارادہ کیا خواہ وہ امام ہویامنفرد و مقتدی ،تو وہ آواز نکالے بغیر فقط دل میں نیت کرے گا۔(موسوعہ فقھیہ کویتیہ،ج24،ص223،مطبوعہ دارالسلاسل،کویت)

   دورانِ نماز اقامت کی نیت درست ہونے کے بارے میں فتاوی ہندیہ میں ہے:” ولو نوى المسافر الإقامة في الصلاة في الوقت أتمها “اگر مسافر نے وقت کے اندر ہی نماز کے دوران اقامت کی نیت کی ،تو وہ نماز مکمل چار رکعات پڑھے گا۔(فتاوی ھندیہ،ج01،ص141،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   مبسوط میں ہے:” إذا نوى الإقامة في خلال الصلاة يصح “ترجمہ:جب مسافر نے دورانِ نماز اقامت کی نیت کی تو یہ نیت صحیح ہو جائے گی۔(مبسوط للسرخسی،ج01،ص239،مطبوعہ دارالفکر ،بیروت )

   اقامت کی نیت درست ہونے کی علت کے متعلق الفروق للکرابیسی میں ہے:” لو نوى الإقامة يبطل حكم السفر، ويصير مقيماوالمعنى فيه الإقامة ترك العمل والترك يحصل مع النية من غير عمل “ترجمہ:اگر مسافر نے اقامت کی نیت کی توسفر کاحکم باطل ہو جائے گااور وہ مقیم ہو جائے گااوراس میں راز یہ ہے کہ سفر عمل ہے ،تو جب عمل نہیں پایا گیا، توحکم بھی نہیں لگایا جائے گااور اقامت ترکِ عمل ہےاورترک نیت کے ساتھ بغیر عمل کے حاصل ہو جاتا  ہے۔(ملخص از الفروق للکرابیسی،ج01،ص74،مطبوعہ وزارۃ الاوقاف الکویتیہ)

   دورانِ نماز دوسری نماز کی نیت کے بارے میں درمختار وردالمحتار میں ہے:” (ولا تبطل بنية القطع ما لم يكبر بنية مغايرة ) بأن يكبر ناويا النفل بعد شروع الفرض وعكسه، أو الفائتة بعد الوقتية وعكسه “ترجمہ:قطع کی نیت سے نما زباطل نہیں ہوتی جب تک دوسری مختلف نیت کے ساتھ تکبیر نہ کہی ہو،یعنی فرض نماز شروع کرنے کے بعد نفل کی نیت سے تکبیر کہی یا اس کے برعکس یا ادا نماز پڑھتے ہوئے قضا کی نیت کی یا اس کے برعکس۔(درمختاروردالمحتار،ج01،ص441،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   زبان سے نیت کرنے کی صورت میں نماز کے ٹوٹ جانے کے بارے میں حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:” أما لو تلفظ بها انتقض ما صلى “ترجمہ:بہرحال اگر نمازی نے نیت کے الفاظ زبان سے ادا کیے تو جو وہ نماز پڑھ رہاتھا وہ ٹوٹ جائے گی۔(حاشیۃ الطحطاوی،ج01،ص335،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   علامہ حموی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”هذا إذا نوى بالقلب وأما لو تلفظ باللسان فسدت“ترجمہ:یہ اس وقت ہے کہ اس نے نیت دل سے کی ہو اور اگر اس نے )نیت کے(الفاظ زبان کے ساتھ ادا کیے ،تو نماز ٹوٹ جائے گی۔(غمزعیون البصائر ، ج1،ص 158،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:”فإن تلفظ بالنية بطلت صلاته “ترجمہ: اور اگر نمازی  نے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کیے، تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔(موسوعہ فقھیہ کویتیہ،ج24،ص223،مطبوعہ دارالسلاسل،کویت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم