Namaz Mein Khayal Kisi Aur Jagah Chala Jaye Aur Rakat Ki Tadad Mein Shak Ho To Kya Karen?

نماز میں خیال کسی اور جگہ چلا جائے اور رکعتوں کی تعداد میں شک ہو تو کیا کریں؟

مجیب:ابو مصطفی محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-64

تاریخ اجراء:05رجب المرجب1442 ھ/18 فروری 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ اگر نماز میں خیال کسی اورجگہ چلا جائے  اوریا دنہیں رہا کہ کتنی رکعتیں پڑھ لیں تو وہ کیا کرے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر بالغ ہونے کے بعد  رکعتوں کی تعداد میں ایسا  شک پہلی مرتبہ ہوا  تو نماز توڑ کرنئے سرے سے پڑھے  یا جس طرف غالب گمان ہو تو  اس پر عمل کر کے پڑھ لے  مگر پھر بھی  یہ نماز نئے سرے سے پڑھنی ہو گی اور اگرایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ، اس سے پہلے بھی ایسی بھول  ہو چکی ہو تو     اب اگر اسے کسی طرف غالب گمان ہو تواسی پر عمل کرے ،مثلاً رکعتوں کے دویاتین ہونے میں شک ہے اورغالب گمان ہےکہ تین پڑھ چکاتوتین ہی سمجھے اوراس صورت میں سجدہ سہو کی بھی حاجت نہیں ہے جبکہ سوچنے میں ایک رکن کی مقداروقفہ نہ ہواہو۔اور کسی طرف غالب گمان نہ ہو توکم رکعتیں شمار کر لے مثلاً دویا تین میں شک ہواتودو شمار کرلے ،تین یا چار میں شک ہواتو تین شمار کرلے علی ھذاالقیاس ،اوراس صورت میں  تیسری اور چوتھی  دونوں  رکعتوں   میں قعدہ کرے کیونکہ  تیسری رکعت میں چوتھی رکعت ہونے   کا احتمال ہے ، اور آخر میں  سجدہ سہو بھی کرے ۔

   بہارِ شریعت میں ہے :’’جس کو شمار ِ رکعت میں  شک ہو ، مثلاً تین ہوئیں یا چار  اور بلوغ کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے  تو سلام پھیر کر  یا کوئی  عمل منافی نماز کر کے  توڑ دے  یا غالب گمان کے بموجب پڑھ لے،  مگر بہر صورت اس نماز کو سرے سے  پڑھے ، محض توڑنے کی نیت کافی نہیں، اور اگر یہ شک پہلی بار نہیں  بلکہ پیشتر بھی ہو چکا  ہےتو اگر غالب گمان کسی طرف  ہوتو اس پر عمل کرے  ورنہ کم کی  جانب کو اختیار کرے   یعنی تین اور چار میں شک  ہو تو تین قرار دے ، دو اور تین میں شک ہو تو دو ، وعلی ہذا القیاس  اور تیسری چوتھی  دونوں میں قعدہ کرے  کہ تیسری رکعت کا  چوتھی ہونا محتمل ہے  اور چوتھی  میں قعدہ کے بعد  سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے  اور گمان غالب کی صورت میں سجدہ سہو نہیں  مگر جبکہ   سوچنے میں  بقدرِ ایک رکن  کے وقفہ کیا ہو  تو سجدہ سہو واجب ہو گیا ۔“ ( بہارِ شریعت، ج 1ص718،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم