Namaz Mein Surah Fatiha Aur Surat Milane Se Pehle Tasmiya Parhne Ka Hukum

نماز میں سورہ فاتحہ اور سورت ملانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:  FSD-8015

تاریخ اجراء: 09 صفر المظفر1444ھ/06 ستمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ  کیا  تسمیہ یعنی بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰن الرَّحِيم ہر رکعت کے شروع میں پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ نیز سورت شروع کرنے سے پہلے ”تسمیہ“ پڑھنا واجب ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پہلی رکعت میں ثناء اور تعوُّذ یعنی” اَعُوذ باللہ“کے بعد اور بعد والی ہر رکعت کے شروع میں قراءت کا آغاز کرنے سے پہلے امام کے لیے اور منفردیعنی تنہا نماز پڑھنے والے  کے لیے ، یوں ہی مسبوق کے لیے کہ جب وہ فوت شدہ رکعتیں ادا کرے” تسمیہ“پڑھنا سُنَّت ہے اور سورۃ الفاتحہ کے بعد دوسری سورت شروع کرنے سے پہلے ”تسمیہ“پڑھنا راجح اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق ”مستحسن“ اور ”مستحب“ ہے، واجب یا سُنَّت نہیں۔

   ابتدائے رکعت میں تسمیہ پڑھنے کے متعلق تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:’’‌سمى ‌غير المؤتم بلفظ البسملة سرا في أول  كل ركعة  ولو جهرية ‘‘ترجمہ:امام اور منفرد  ہر رکعت کے آغاز پر آہستہ آواز میں  بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰن الرَّحِيم “ پڑھیں، خواہ وہ رکعت جہری ہی ہو۔(تنویر الابصار و درمختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ 234،مطبوعہ کوئٹہ)

   سورت ملانے سے پہلے تسمیہ پڑھنے کے متعلق اِسی میں ہے:’’و  لا تسن  بين الفاتحة والسورة مطلقا ولو سريۃ‘‘ترجمہ:فاتحہ اور سورت کے درمیان تسمیہ پڑھنا سُنَّت نہیں (بلکہ مستحسن)ہے، خواہ وہ نماز  سِری ہی کیوں نہ ہو۔(تنویر الابصار و درمختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ 234،مطبوعہ کوئٹہ)

   قبلِ شروعِ سورت تسمیہ کی سُنِّیَّت یا استحسان پر تحقیق:

   قولِ اوَّل: سورت ملانے سے پہلے تسمیہ پڑھنا ”مستحسن“ ہے، سُنَّت نہیں۔ یہ قول شیخین یعنی امام اعظم اور امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْھِمَا  کا ہے۔

   قولِ ثانی:سری قراءت کرتے ہوئے فاتحہ کے بعد اور سورت ملانے  سے پہلے ”تسمیہ“ پڑھنا سُنَّت ہے، البتہ جہری  نماز میں سنت نہیں۔ یہ قول امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے۔(یعنی شیخین کے نزدیک جہری و سری نماز میں فاتحہ کے بعد ابتدائے سورت ہو، تو تسمیہ  مستحسن اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک  سری نماز میں  ابتدائے سورت ہو، تو سنت ہے اور جہری میں نہیں۔)

   عباراتِ ائمہ ثلاثہ:

   قولِ شیخین بیان کرتے ہوئے علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتے ہیں:’’ ذکر الفقیہ ابو جعفر عن ابی حنیفۃ انہ اذا قراھا مع کل سورۃ فحسن‘‘ترجمہ: امام ابو جعفر ہندوانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ، امام اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے روایت کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :اگر منفرد یا امام  ہر سورت کے ساتھ تسمیہ پڑھے تو یہ عمل ”مستحسن“ یعنی اچھا ہے۔(بظاہر یہ فقط قولِ امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہے، البتہ نیچے آنے والے جزئیات سے واضح ہو جائے گا کہ امام ابو یوسف بھی امام اعظم  کے ساتھ ہیں۔ ) (الذخیرۃ البرھانیۃ، جلد2،کتاب الصلاۃ،  صفحہ 31، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   نوٹ:شیخین کے اِس قول کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ فقط امام ابو یوسف  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کا ہی قول ہے، امام اعظم سے اس مسئلہ میں کوئی روایت مروی نہیں ہے۔یہ رائے قائم کرنے والے ابو البقاء علامہ احمد مکی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:854ھ/1450ء) ہیں۔ اِنہوں نے ”الضیاء المعنوی  شرح مقدمة الغزنوي“ میں یہ بات بیان کی ہے۔ اِن ہی کی امورِ حج وعمرہ  کے متعلق مشہور کتاب ”البحر العمیق  فی مناسک المعتمر والحاج الی  البیت العتیق“ بھی ہے۔

   علامہ شامیرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِآپ کے اِس دعویٰ کے متعلق ”حاشیۃ ابنِ عابدین“ میں لکھتے ہیں:’’نسب ابن الضياء  فی شرح الغزنوية الأول إلى أبي يوسف فقط فقال: وهذا قول أبي يوسف‘‘ ترجمہ:ابنِ ضیاء علامہ  احمد مکی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”شرح الغزنویۃ “ میں پہلے قول کو صرف امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی طرف  منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ235، مطبوعہ  کوئٹہ)

   امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے قول کو یوں بیان کیا گیا:’’روی ابن رجاء عن محمد أنه يأتي ‌بالتسمية ‌عند ‌افتتاح كل ركعة، وعند افتتاح السورة أيضا إلا أنه إذا كان صلاة يجهر فيها بالسورةلا يأتي بالتسمية بين الفاتحة والسورة‘‘ ترجمہ:ابنِ رجاء نے امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے روایت کیا کہ منفرد یا امام ہر رکعت کی ابتداء میں تسمیہ پڑھیں، یونہی جب سورت شروع کرے، تب بھی پڑھے، ہاں جب سورت جہری پڑھی جانی ہو، تو  اُس وقت فاتحہ اور سورت کے درمیان تسمیہ نہ پڑھے۔(الذخیرۃ البرھانیۃ، جلد2،کتاب الصلاۃ،  صفحہ 31، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   زین الدین علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’قال محمد ‌تسن ‌إن ‌خافت‘‘ ترجمہ:امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:اگر نماز سِری ہو تو تسمیہ پڑھنا سنت ہے۔ (بحر الرائق، جلد1،صفحہ330،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

   نوٹ: امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روایتِ سُنِّیَّت نقل کرنے والے دو فقہاء ہیں۔ ”الذخیرۃ البرہانیۃ“ کے مطابق ”ابنِ رجاء“ اور  المحیط البرھانی“ کے مطابق ”ابنِ ابی رملہ“ ہیں۔

   شیخین کے قول کی ترجیح:

   (1)علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’إن سمى ‌بين ‌الفاتحة والسورة كان حسنا عند أبي حنيفة سواء كانت تلك السورة مقروءة سرا أو جهرا ورجحه المحقق ابن الهمام وتلميذه الحلبي‘‘ ترجمہ:اگر کوئی فاتحہ اور سورت کے درمیان تسمیہ پڑھے ،تو امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک یہ عمل  مستحسن ہے۔ اِس بات کا کوئی فرق نہیں کہ سورت آہستہ پڑھی جانی ہو یا بلند آواز میں۔ اِسی قولِ امام کو  محقِّق ابن ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور  اُن کے شاگرد علامہ حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے راجح قرار دیا ہے۔ (بحر الرائق، جلد1،صفحہ330،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

   اِس قولِ استحسان کو علامہ ابنِ ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترجیح دی اور آپ کے مقامِ ترجیح کو علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء)شرح  عقود رسم المفتی“ میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’ان المحقق ابن الھمام من اھل الترجیح، حیث قال عنہ:انہ اھل للنظر فی الدلیل، وحینئذ فلنا اتباعہ فیما یحققہ ویرجحہ من الروایات او الاقوال، ما لم یخرج عن المذھب، فانہ  لہ اختیارات خالف فیھا المذھب، فلا یتابع علیھا، کما قالہ تلمیذہ العلامۃ قاسم‘‘ ترجمہ:بلاشبہ محقِّق ابن ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ”اہلِ ترجیح“ میں سے ہیں، چنانچہ آپ کے متعلق صاحب بحر نے فرمایا: بیشک وہ دلائل میں نظر  کی صلاحیت رکھتے تھے۔(صاحبِ بحر کا کلام مکمل ہوا۔ اب علامہ شامی اپنا تبصرہ کریں گے۔) لہذا  جب تک علامہ ابن ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تحقیق مذہب سے عدول کیے ہوئے نہ ہو، تو ہمارے لیے یہی ہے کہ جن روایات یا اقوال میں وہ تحقیق وترجیح کو واضح کریں، ہم اُسی کی اتباع کریں۔(عدول نہ ہونے کی قید اِس لیے ہے) کیونکہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کے کئی اختیار کردہ اقوال اس طرح کے ہیں ، جن میں انہوں نے مذہب کی مخالفت کی ہے ، لہٰذا اُن اقوال کی اتباع نہیں کی جائے گی، جیسا کہ اُن کے شاگرد علامہ قاسم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بیان کیا۔(شرح عقود رسم المفتی، صفحہ50، مطبوعہ کراچی)

   علامہ کاسانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تصحیح:

   ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:’’أما عند رأس كل سورة في الصلاة فلا يأتي بالتسمية عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد يأتي بها احتياطا كما في أول الفاتحة، والصحيح قولهما‘‘ ترجمہ:بہرحال شیخین کے نزدیک دورانِ نماز ہر سورت کے شروع میں تسمیہ پڑھنا ضروری نہیں، جبکہ امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:احتیاطاً وصلِ سورت سے پہلے تسمیہ پڑھے، جیسا کہ سورۃ الفاتحہ سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ صحیح قول شیخین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْھما  کا ہے۔(بدا ئع الصنائع، جلد2،کتاب الصلاۃ، صفحہ37،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   صاحبِ ”نھر الفائق “ کا میلان وترجیح:

   سراج الدین علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1005ھ/1596ء) لکھتے ہیں:’’الحق أنهما ‌قولان ‌مرجحان إلا أن المتون على الأول‘‘ترجمہ:حق بات یہ ہے کہ دونوں اقوال ہی ترجیح یافتہ ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ عباراتِ متونِ مذہب پہلے قول  (قولِ شیخین)کے مطابق ہیں۔(نھر الفائق، جلد1، صفحہ 211، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   صاحبِ ”نھر الفائق“ کی اِس عبارت کو علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  یوں توفیق وتطبیق دیتے ہیں :اقول ان الاول مرجح من حیث الروایۃ والثانی من حیث الدرایۃ‘‘ ترجمہ:میں یہ کہتا ہوں: پہلا قول روایت اور دوسرا درایت  کی حیثیت سے ترجیح یافتہ ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ236، مطبوعہ  کوئٹہ)

   یہ توفیق علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بیان کردہ ہے، مگر امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) نے آپ کے اِس بیانِ تطبیق پر تفصیلی کلام کیا اور آخر میں یہ نتیجہ بیان فرمایا :’’فظهر أن الأول هو الراجح رواية ودراية‘‘ترجمہ:تو ظاہر یہ ہوا کہ پہلا قول یعنی قولِ شیخین ہی روایت ودرایت، ہر دو طرح راجح ہے۔ (جد الممتار، جلد3، صفحہ194، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   ”ابنِ امیر الحاج“  کا تبصرہ:

   شمس الدین علامہ ابنِ امیر الحاج حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:879ھ/1474ء) لکھتےہیں:’’ قلت وظاھر ما قدمناہ من الذخیرۃ ان عند ابی حنیفۃ انہ ان اتی بھا فی ابتداء کل سورۃ  في الصلاة كان حسناً، سواء كانت تلك السورة مقروءة سراً أو جهراً  وفي شرح الزاهدي وعن أبي حنيفة أن التسمية حسن بين السورتين، انتهى. وهو أولى‘‘ترجمہ:میں یہ کہتا ہوں:ماقبل ”الذخیرۃ البرھانیۃ“ کے کلام کا  ظاہر یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک اگر منفرد یا امام  ہر سورت کے ساتھ تسمیہ پڑھے ،تو یہ عمل ”مستحسن“ یعنی اچھا ہے۔ اِس بات کا کوئی فرق نہیں کہ سورت آہستہ پڑھی جانی ہو یا بلند آواز میں۔”شرح الزاھدی“ میں ہے:دو سورتوں کے مابین تسمیہ پڑھنا عند الامام مستحسن ہے۔(ذخیرہ کی عبارت مکمل ہوئی۔) یہی قولِ امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اَولیٰ ہے۔(حَلْبَۃ المُجَلِّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد2، صفحہ 131،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   مِقدام المحدثین، رئیس الفقہاء، علامہ وَصِی احمد محدث سُوْرَتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1334ھ/1916ء) لکھتے ہیں:’’ھذا قول المحققین من اھل العلم وفیہ جمع بین الادلۃ ‘‘ترجمہ:قولِ شیخین ہی اہلِ علم محققین کا  قول ہے، نیز اِس قول میں دلائل کی جمع ورعایت بھی موجود ہے۔(التعلیق المجلیٰ لما فی منية المصلي، باب صفۃ الصلاۃ، صفحہ288، مطبوعہ ضیاء القرآن، لاھور)

    امام اہلِ سنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مختار قول:

   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) نے اَوّلاً تو ”جدالممتار“ میں قولِ شیخین کو بصراحت روایت ودرایت، ہر دو حیثیت سے راجح قرار دیا، جیسا کہ اوپر جزئیہ گزر چکا۔ دوسری طرف جب آپ سے فتاویٰ رضویہ میں اِسی مسئلہ کے متعلق سوال ہوا ،تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا: سورہ فاتحہ کی ابتداء میں تو تسمیہ پڑھنا سنت ہے اور بعد کو اگر سورت یا شروع سورت کی آیتیں ملائے، تو اُن سے پہلے تسمیہ پڑھنا مستحب ہے،  پڑھے تو اچھا،  نہ پڑھے تو حرج نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ191،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   الفاظِ افتاء  کی روشنی میں قولِ شیخین کی ترجیح:

   جیسا کہ ابتداء میں بیان ہوا کہ اصلاً استحسان کا قول شیخین  کا ہے، جبکہ ابنِ ضیاء علامہ  مکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی رائے یہ ہے کہ یہ فقط امام ابویوسف  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے، لہذا  اِس قولِ شیخین کو قولِ امام ابو یوسف قرار دیتے ہوئے ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب المصفیٰ“ میں لکھا:ان الفتویٰ علی قولِ ابی یوسف انہ یسمی فی اول کل رکعۃ ویخفیھا‘‘ ترجمہ:فتویٰ امام ابو یوسف کے قول پر ہے کہ منفرد یا امام ابتدائے رکعت میں آہستہ آواز سے  تسمیہ پڑھے ۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ235، مطبوعہ  کوئٹہ)

   دوسری جانب امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے قول کے متعلق  علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بحوالہ ”المحیط“ لکھتے ہیں:’’المختار قول محمد‘‘ ترجمہ:”محیط“ میں ہے کہ امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول مختار ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ235، مطبوعہ  کوئٹہ)

   شیخین کے قولِ استحسان کے لیے لفظِ ”فتویٰ“ اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے قول کے لیے ”المختار“ استعمال کیا گیا اور رسم الافتاء جاننے والے کو یہ بات معلوم ہے کہ  لفظِ ”فتویٰ“،”المختار“ سے زیادہ مؤکد واَبلغ ہے، چنانچہ اِسی ”تسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ“ کی بحث  میں نقلِ اقوال کے بعد علامہ ابنِ عابدین  شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ قولِ شیخین کومفتیٰ بہ، مختار اور راجح قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’انما اختیر قول ابی یوسف، لان لفظۃ الفتویٰ آکد وابلغ من لفظۃ المختارولان قول ابی یوسف وسط وخیر الامور اوسطھا، کذا فی شرح عمدۃ المصلی‘‘ ترجمہ: امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے قول کو ہی اختیار کیا جائے گا، کیونکہ لفظِ ”فتویٰ ،”المختار“ سے زیادہ مؤکد واَبلغ ہے، نیز قولِ امام ابو یوسف  معتدل ہے اور سب سے بہترین کام وہی ہے جو معتدل ہو، جیسا کہ ”عمدۃ المصلی“کی شرح میں ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ235، مطبوعہ  کوئٹہ)

   شرح عقود رسم المفتی“ میں ہے:’’لفظ الفتویٰ آکد من لفظ الصحیح والاصح والاشبہ وغیرھا ‘‘ترجمہ:”فتویٰ“ کا لفظ ”صحیح، اصح، اشبہ“ وغیرہا سے زیادہ تاکید رکھتا ہے۔(شرح عقود رسم المفتی، صفحہ62، مطبوعہ کراچی)

حاشیہ”منحۃ الخالق“ میں ہے:’’في المستصفى وعليه الفتوى، وفي البدائع الصحيح قولهما، وفي العتابية والمحيط قول محمد هو المختار ونقل ابن الضياء في شرح الغزنوية عن شرح عمدة المصلي أنه إنما اختير قول أبي يوسف هذا لأن لفظة الفتوى آكد وأبلغ من لفظة المختار‘‘ ترجمہ: واضح ہے۔(منحۃ الخالق علی بحر الرائق، جلد1،صفحہ330،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

نتیجہ:

   کلمات وترجیحاتِ فقہاء اور الفاظِ افتاء کی روشنی میں قولِ شیخین یعنی فاتحہ اور سورت کے درمیان ”تسمیہ“ کا  مستحسن ومستحب“ ہونا ہی مفتیٰ بہ، مُصَحَّح اور راجح ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم