Namaz Mein Surah Fatiha Ke Bajaye Dusri Surat Shuru Kardi To Kya Hukum Hai?

نماز میں سورہ فاتحہ کے بجائے دوسری سورت شروع کر دی، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اختر عطاری

مصدق:مفتی فضیل  رضا عطاری

فتوی نمبر:Mul-747

تاریخ اجراء:06 محرم الحرام1445ھ/25جولائی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ اگر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنےکے بجائے   بھولے سے کوئی اور سورت شروع کردی ،پھریاد آیا،تو اب کیا حکم ہے   ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فرض کی پہلی، دوسری  رکعت  اورباقی تمام  نمازوں کی  کسی  بھی رکعت میں فاتحہ کے بجائے بھولے سے سورت شروع کردی، تو اس حوالے سے حکم کی تفصیل یہ  ہے کہ :

   (1)اگر رکن کی ادائیگی کی مقدار (یعنی محتاط قول کے مطابق   ایک ایسی  آیت جو کم از کم چھ حروف پر مشتمل ہو اور صرف ایک کلمہ کی نہ ہو،) پڑھنے سے پہلے ہی یاد آجائے کہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھی  ، تو فورا ًسورہ فاتحہ شروع کردیں ، پھر سورت ملائیں اور اس صورت میں سجدہ  سہو بھی  لازم نہیں ہوگا۔

   (2) اگر رکن کی ادائیگی کی مقداریا اس سے زیادہ پڑھ لینے کے بعد اور رکوع سے پہلے یاد آجائے،تو حکم  یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھیں، پھر دوبارہ سورت ملائیں اور آخر میں سجدہ سہو کریں۔

   (3) اگررکوع میں یا رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد اورسجدے سے پہلے یاد آیا ،تو واپس  آکر سورہ فاتحہ پڑھیں، پھر سورت ملائیں،دوبارہ  رکوع  کریں اور آخر میں سجدہ سہو کریں ۔

   (4) اوراگر سجدے میں جانے تک یاد نہ آئے ،تو  آخر میں سجدہ سہو کرلینا کافی ہے ۔

   خیال رہے سجدےسے  پہلے یاد آنے کی صورت میں اگر قراءت مکمل نہ کی یعنی سورہ فاتحہ اور اس کے بعد سورت نہ پڑھی، تویہ  قصداً ترکِ واجب ہوگا ،لہذا  نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہو گا اور اگررکوع میں یا رکوع کے بعدیاد آیا اورکھڑے ہوکرقراءت مکمل کرلی ،تو رکوع سےبعد والی قراءت ، پہلی سے  لاحق ہوکر یہ ساری قراءت فرض واقع ہوگی اور پہلے والا رکوع معتبر نہیں رہے گا،اس لیےاب  رکوع دوبارہ نہ کیا ،تو  فرض ترک ہونے کی وجہ سے نماز ہی فاسد ہوجائے گی۔نیزجہاں سجدہ سہو کا حکم ہے، وہاں اگر سجدہ سہو نہ کیا، تو نماز دوبارہ  پڑھنا واجب  ہے   ۔

   فرض کی پہلی ، دوسری  رکعت  اورباقی  نمازوں کی  تمام رکعتوں  میں فاتحہ  وسورت کا حکم بیان کرتے ہوئے  تنویر الابصار ودر مختار میں واجباتِ نماز کےبیان میں فرمایا:’’( قراءۃ فاتحۃ الکتاب فی الاولیین من الفرض و)فی جمیع رکعات( النفل و)کل( الوتر  و تقدیم الفاتحۃ علی) کل (السورۃ) ملخصا‘‘فرض کی پہلی دو رکعتوں ،نفل اور وتر کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور سورہ  فاتحہ کاپوری سورت پرمقدم ہوناواجب ہے ۔(درمختارمع ردالمحتار،ج2،ص184،188،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے :’’قولہ: (علی کل السورۃ) حتی قالوا لو قرء حرفاً من السورة ساهياً ثم تذكّر يقرا الفاتحة ثم السورة ويلزمه سجود السهو بحر وهل المراد بالحرف حقيقته او الكلمة يراجع ثم رايت فی سهو البحر قال بعد ما مر: وقيده في فتح القدير بان يكون مقدار ما يتأدى به ركن ‘‘ شارح علیہ الرحمۃ کا قول:( پوری سورت پر) یہاں تک کہ فقہائے کرام نے فرمایا :بھولے سے اگر کسی سورت کا ایک حرف بھی پڑھ لیا، پھر یاد آیا، تو سورہ فاتحہ پڑھے ،پھر سورت ملائے اور اس پر سجدہ سہو لازم ہے۔بحر ۔یہاں حرف سے حقیقتاً حرف ہی مراد ہے یا کلمہ مراد ہے ؟ اسے دیکھنا چاہیے، پھر میں نے بحر کے سجدۂ سہو کے بیان میں دیکھا کہ گزشتہ گفتگو ذکر کرنے کے بعد فرمایا : اس مسئلے کو فتح القدیر میں رکن ادا ہوجانے کی مقدار سے مقید کیا ہے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار،ج2،ص188،مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ بالا جزئیے سے معلوم ہوا کہ رکن کی ادائیگی کی مقدار  پڑھنے سے پہلے ہی  فاتحہ یاد آجائے   تو فاتحہ اور اس کے بعد سورت پڑھیں اور سجدہ  سہو  لازم نہیں،جیسا کہ فتوی میں بیان  ہوا۔اس پر مزید جزئیات درج ذیل ہیں۔

   طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’ومن الواجب تقدیم الفاتحۃ علی السورۃ وان لا یوخر السورۃ عنھا بمقدار اداء رکن فلو بدأبآیۃ من السورۃ ثم تذکر الفاتحۃ یقرءھاویعید السورۃ ویسجد للسھو لتاخیر الواجب عن محلہ‘‘ فاتحہ کو سورت پر مقدم کرنا اور سورت کو فاتحہ سےا دائےرکن کی مقدار مؤخر نہ کرنا واجب ہے،تو اگر سورت کی ایک آیت کے ساتھ ابتدا کردی، پھر فاتحہ یاد آئی ،تو فاتحہ پڑھے،پھرسورت پڑھ کر سجدہ سہو کرے، واجب کو اپنے محل سے مؤخر کرنے کی وجہ سے۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،ص460،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’امام نے بھول کر سورہ فاتحہ سے پہلے’’یسبح للہ‘‘پڑھ دیا ،پھریاد آنے پر خود ہی سورہ فاتحہ پڑھ کر سورت ملائی اور نماز مکمل کی، تو کیا سجدہ سہو واجب ہو گا ؟‘‘

   توآپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:’’ فقط اتنا پڑھنے پر سجدہ سہو واجب نہیں، ہاں اگر ایک آیت پڑھ لیتا، تو سجدہ سہو واجب ہو جاتا اور بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ ایک حرف کا پڑھنا بھی موجبِ سجدہ سہو ہے ،مگرصحیح یہ ہے کہ حرف سے مراد ہے جس سے ایک رکن ادا ہو جاتا ہو یعنی ایک آیت اور اس سے کم میں سجدہ سہو واجب نہیں۔‘‘(ملتقطاً ،فتاوی امجدیہ،ج1،ص279،280مطبوعہ مکتبہ رضویہ ،آرام باغ کراچی )

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ’’  آیت ما یجوز بہ صلٰوۃ کتنی مقدار ہے؟‘‘

   تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:’’وہ آیت کہ چھ حرف سے کم نہ ہو اور بہت نے اُس کے ساتھ یہ بھی شرط لگائی کہ صرف ایک کلمہ کی نہ ہو، تو ان کے نزدیک﴿ مُدھَامّتٰن ا گرچہ پوری آیت اور چھ ۶ حرف سے زائد ہے، جوازِ نماز کو کافی نہیں ،اسی کو منیہ وظہیریہ وسراج وہاج و فتح القدیر و بحرالرائق و درمختار وغیرہا میں اصح کہا اور امام اجل اسبیحابی وامام ملک العلماء ابو بکر مسعود کاشانی نے فرمایا کہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نزدیک صرف ﴿ مُدھَامّتٰن سے بھی نمازجائز ہے اور اس میں اصلاً ذکر خلاف نہ فرمایا ،دُرمختار میں ہے:’’ اقلھا ستۃ احرف ولو تقدیر اکلم یلد الا اذاکانت کلمۃ فالاصح عدم الصحۃ‘‘ اس آیت کے کم از کم چھ حروف ہوں ،اگر چہ وہ لفظاً نہ ہوں ،بلکہ تقدیراً ہوں مثلاً’’ لم یلد‘‘(کہ اصل میں ’’لم یولد‘‘ تھا) مگر اس صورت میں کہ جب وہ آیت صرف ایک کلمہ پر مشتمل ہو، تو اصح عدمِ صحتِ نماز ہے۔ظہیریہ ،السراج ، الوہاج اورفتح القدیر میں بھی یوں ہی ہے۔فتح القدیر میں ہے : ’’لو کانت کلمۃ اسماً او حرفاً نحو مدھامتٰن ص ق ن فان ھذہ اٰیات عند بعض القراء اختلف فیہ علی قولہ  والاصح انہ لا یجوز لانہ یسمی عادا لا قارئا ‘‘ اگروہ آیت ایک کلمہ پر مشتمل ہے، خواہ اسم ہو یا حرف مثلاً﴿ مُدھَامّتٰن ص،ق،ن کیونکہ یہ بعض قراء کے نزدیک آیات ہیں ان کے قول پر اس میں اختلاف ہے اور اصح یہی ہے کہ یہ جواز ِ نماز کے لیے کافی نہیں، کیونکہ ایسے شخص کو قاری نہیں کہا جاتا ،بلکہ شمار کرنے والا کہا جاتا ہے۔

   بحرالرائق میں اسے ذکر کرکے فرمایا :’’کذا ذکرہ الشارحون وھومسلم فی ص و نحوہ امافی مدھا متٰن فذکر الاسبیجابی وصاحب البدائع انہ یجوز علی قول ابی حنیفۃ من غیر ذکر خلاف بین المشائخ‘‘شارحین نے اسے یوں ہی بیان کیا ہے اور یہ بات ص وغیرہ میں تو مسلم ہے، مگر ﴿ مُدھَامّتٰن کے بارے میں اسبیجابی اور صاحبِ بدائع نے اختلافِ مشائخ ذکر کیے بغیر کہا کہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق یہ جوازِ نماز کے لیے کافی ہے ۔بدائع میں ہے :’’ فی ظاھر الروایۃ قدر  ادنی المفروض  بالاٰیۃ التامۃ طویلۃ  کانت  اوقصیرۃ  کقولہ تعالٰی مدھامتٰن  وماقالہ  ابوحنیفۃ اقیس‘‘ ظاہر الروایہ کے مطابق فرض قراءت کی مقدار کم ازکم ایک مکمل آیت ہے، وہ آیت لمبی ہو یا چھوٹی ۔جیسے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ مُدھَامّتٰن ا ورامام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی نے جو کچھ فرمایا ہے، وہی زیادہ قرینِ قیاس ہے۔

   اقول:  اظہر یہی ہے مگر جبکہ ایک جماعت اُسے ترجیح دے رہی ہے، تو احتراز ہی میں احتیاط ہے خصوصاً اس حالت میں کہ اس کی ضرورت نہ ہوگی، مگر مثل فجر میں جبکہ وقت قدر واجب سے کم رہا ہو ایسے وقت "ثم نظر"کہ بالاجماع ہمارے امام کے نزدیک ادائے فرض کو کافی ہے ﴿ مُدھَامّتٰن سے جلد ادا ہوجائے گا کہ اس میں حرف بھی زائد ہیں اور ایک مد متصل ہے جس کا ترک حرام ہے ،ہاں جسے یہی یاد ہو اُس کے بارے میں وُہ کلام ہوگا اور احوط اعادہ ۔ملخصا‘‘(فتاوی رضویہ ج6،ص344۔۔346،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   رکن کی ادائیگی کی مقدار یا اس سے زیادہ پڑھ لینے کے بعد رکوع سے پہلے ،رکوع میں   یا رکوع کے بعد اور سجدہ سے پہلے یاد آیا،  تو اس کے  متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ ومن سها عن فاتحة الكتاب في الأولى أو في الثانية وتذكر بعد ما قرأ بعض السورة يعود فيقرأ بالفاتحة ثم بالسورة وكذلك إذا تذكر بعد الفراغ من السورة أو في الركوع أو بعد ما  رفع رأسه من الركوع فإنه يأتي بالفاتحة ثم يعيد السورة ثم يسجد للسهو‘‘ملخصا جو پہلی رکعت میں یا دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا بھول گیا اور بعض سورت پڑھنے کے بعد یاد آیا، تو وہ لوٹےاور سورہ فاتحہ پڑھے۔ اسی طرح جب اسے سورت سے فارغ ہونے کے بعد یاد آئےیا رکوع میں یاد آئے یا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آئے، تو سورہ فاتحہ کو پڑھے ،پھر سورت کا اعادہ کرے ،پھر سجدہ سہو کرے۔ملخصا (فتاوی عالمگیری،ج1،ص272،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’الحمد پڑھنا بھول گیا اور سورت شروع کر دی اور بقدر ایک آیت کے پڑھ لی، اب یاد آیا ،تو الحمد پڑھ کر سورت پڑھے اور سجدہ واجب ہے۔ يوہيں اگر سورت کے پڑھنے کے بعد یا رکوع میں یا رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا، تو پھر الحمد پڑھ کر سورت پڑھے اور رکوع کا اعادہ کرے اور سجدۂ سہو کرے۔‘‘(بھار شریعت، ج1،ص711، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اگر سجدے میں جانے تک یاد نہ آیا  ،یارکوع  میں یا رکوع کے بعدیاد آیا اورقراءت مکمل کرلی، مگر رکوع دوبارہ نہ کیا ،یا سجدے سے پہلے یاد آیا، مگر قراءت مکمل نہ کی، تو کیا حکم ہوگا؟اس کے متعلق تنویر الابصارودر مختار میں سجدہ سہو کےبیان میں ہے:’’ثم انما یتحقق الترک بالسجود فلو تذکرولو بعد الرفع من الرکوع عاد ثم اعاد الرکوع الا انہ فی تذکر الفاتحۃ یعید السورۃ ایضا‘‘ملخصا پھر واجب کا ترک   سجدے سے ہی ثابت ہوگا ،تو اگر یاد آگیا اگرچہ رکوع  سے اٹھنے کے بعد تو لوٹ آئے ،پھر (قراءت کے بعد)رکوع دوبارہ کرے ہاں فاتحہ (بھول گیا تھا،وہ)یاد آئی ،تو سورت بھی دوبارہ پڑھے۔(درمختارمع ردالمحتار،ج2،ص656۔۔657،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے :’’قولہ (ثم انما یتحقق الترک) ای ترک القراءۃ  بمعنی فواتھا علی وجہ لایمکن فیہ التدارک ‘‘ شارح علیہ الرحمۃ کا قول :(پھر واجب کا ترک   سجدے سے ہی ثابت ہوگا) یعنی قراءت کا ترک  اس طور پر کہ وہ ایسے چھوٹ جائے کہ اس کا تدارک نہ ہوسکے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار،ج2،ص656،مطبوعہ کوئٹہ)

   مزید اسی میں ہے:’’ قولہ :(ثم اعاد الرکوع) لانہ لما عادو قرء وقعت القراءۃ فرضا والحاصل ان مایقرءہ یلتحق بما قبل الرکوع ویلغو ھذا الرکوع فتلزم اعادتہ حتی لو لم یعدہ بطلت صلاتہ‘‘ شارح علیہ الرحمۃ کا قول:( رکو ع کااعادہ کرے )اس کی وجہ یہ ہے کہ جب واپس آیااور قراءت کی تو ساری قراءت فرض واقع ہوگی ، حاصل یہ ہے کہ  جو قراءت کرے گا وہ رکوع سے پہلے والی قراءت سے لاحق ہو گی اور یہ رکوع  بے کار ہوگا،لہذا اس کا اعادہ لازم ہے ،حتی کہ اگر رکوع کا اعادہ نہ کیا، تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،ج2،ص656،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سےسوال ہوا،جس کا خلاصہ یہ ہے:’’زید نے نماز پڑھی اور فقط ’’الحمدﷲ رب العٰلمین‘‘ پڑھ کر بھول گیا، (واجب قراءت پوری کیےبغیر)رکوع و سجود کیا اور سجدہ سہو  کرکےسلام پھیرا ،اس حالت میں زید کی نماز ہوئی یا نہیں ؟‘‘تو آپ علیہ الرحمہ نےوضاحت سے جواب دیتے ہوئےآخر میں ارشاد فرمایا:’’ہاں اگر ایسا بھُولا کہ نہ بقیہ فاتحہ یاد آتا ہے، نہ قرآن عظیم سے کہیں کی آیتیں اور نا چار رکوع کردیا اور سجدے میں جانے تک فاتحہ وآیات یاد نہ آئیں،تو اب سجدہ سہو کافی ہے اور اگر سجدہ کو جانے سے  پہلے رکوع میں خواہ قومہ بعد الرکوع میں یاد آجائیں تو واجب ہے کہ قراءت پوری کرے اور رکوع کا پھر اعادہ کرے، اگر قراءت پوری نہ کی تواب پھر قصداً ترکِ واجب ہوگا اور نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا اور اگر قراءت بعدا لرکوع پوری کرلی اور رکوع دوبارہ نہ کیا، تو نماز ہی جاتی رہی کہ فرض ترک ہوا۔’’وذلک لان الرکوع یرتفض بالعود الی القراءۃ لانھا فریضۃ وکل مایقرأ ولوالقراٰن العظیم کلہ فانما یقع فرضا کما نصواعلیہ‘‘ اس لیے کہ قراءت کی طرف لوٹنے کی وجہ سے رکوع ختم ہوگیا، کیونکہ قراءت فرض ہے اور قراءت جتنی بھی کی جائے ،خواہ تمام قرآن پاک کی قراءت ہو ،اس سے ایک ہی فرض ادا ہوگا ،جیسا کہ اس پر فقہاء نے تصریح کی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج6،ص330،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں نہ کیا، تو اس کے متعلق فتاوی امجدیہ میں ہے :’’واجبات نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو، تو سجدہ سہو واجب اور سجدہ سہو  نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے ۔‘‘(فتاوی امجدیہ ، ج1، ص276، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم