Namazi Ki Goade Me Bacha Aajaye To Namaz Ka Hukum

نماز ی کی  گود میں بچہ  آکربیٹھ جائے، تو نماز کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6946

تاریخ اجراء:16رمضان المبارک1443ھ18اپریل 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گھر میں تروایح وغیرہ نماز ادا کر رہے ہوں، تو اس دوران چھوٹے بچے کھیلتے کھیلتے آکر نمازی کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں یا پھر سجدے کی حالت میں ہوں، تو پیٹھ پر سوار ہو جاتے ہیں، تو اس صورتِ حاال میں نما زکا کیا حکم ہو گا؟ نیز اگر بچے نے پاجامہ یا پیمپر وغیرہ میں پیشاب یا پاخانہ کیا ہو اور اس حالت میں آکر گود میں بیٹھ جائے، تو کیا اس صورت میں نماز ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دورانِ نماز اگر بچہ گود میں یا جسم کے کسی حصہ پر بیٹھ جائے اور اس نے پیشاب وغیرہ نہیں کیا، تو اس کی وجہ سے  نمازی کی نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ احادیثِ طیبہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حال میں نماز ادا فرمائی کہ آپ  علیہ الصلوۃ والسلام کی گود مبارک میں آپ کی نواسی حضرت امامہ بنتِ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھی تھیں۔

     البتہ اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ بچے نے پیشاب یا پاخانہ کیا ہوا ہےا ور اس کا جسم یا کپڑے ناپاک ہیں، تو پھر نماز کی ادائیگی کے متعلق درج ذیل مختلف صورتیں بنتی ہیں:

     (1) اگر بچہ ہوشیار، سمجھدار ہے، یعنی اس قابل ہے کہ خود گود میں رک سکے (جیسا کہ دو تین سال کا بچہ اپنے سہارے پر رک سکتا ہے)اور وہ آ کر نمازی کی گود یا جسم کے کسی اور حصے پر بیٹھ جائے، تو نماز درست ہو جائے گی، بشرطیکہ نمازی کا بدن یا کپڑے نجاست سے بقدرِ مانع نماز (جس کی وضاحت نیچے موجود ہے) آلودہ نہ ہو جائیں۔

     (2) بچہ اتنا چھوٹا ہے کہ وہ گود وغیرہ میں خود نہیں رک سکتا، تو اس صورت میں حاملِ نجاست(نجاست اٹھائے ہوئے)  ہونے کی وجہ سے نماز باطل ہو جائے گی، اگرچہ نمازی کا اپنا بدن اور کپڑے نجاست سے بالکل بھی ملوث نہ ہوں۔

     (3)بچہ چھوٹا ہو یا بڑا، اگر اس کی وجہ سے نمازی کے جسم یا کپڑوں پر نجاستِ غلیظہ (بچہ اگرچہ ایک دن کا ہو، اس کا پیشاب و پاخانہ نجاستِ غلیظہ ہے) لگ جائے، تو ایک درہم سے زیادہ لگنے کی صورت میں نماز باطل ہو جائے گی، ایک درہم کے برابر لگی ہو، تو نماز مکروہ تحریمی و واجب الاعادہ ہو گی اور اس سے کم میں خلافِ سنت ہو گی، جس کا اعادہ بہتر ہے۔

     دورانِ نماز نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی ان کی گود میں تھیں۔ چنانچہ صحیح البخاری میں حضرت سیدنا ابو قتادہ انصاری  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی وھو حامل امامة بنت زینب۔۔الخ “ترجمہ: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اس حال میں کہ آپ امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 74، مطبوعہ کراچی)

     امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہما کو گود میں لے کر نماز پڑھی ہے۔‘‘(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 134، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     نمازی کی گود میں نجس آلود بچہ بیٹھ جائے،تو اس کے متعلق تبیین الحقائق،بحرالرائق ،محیطِ برہانی اور حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:واللنظم للآخر:”فلو جلس صبی علیہ نجاسة فی حجر مصل وھو یستمسک او الحمام المتنجس علی راسہ ،جازت صلاتہ ،لانہ الحامل للنجاسة غیرہ،بخلاف مالو حمل من لا یستمسک حیث یصیر مضافا الیہ فلا یجوز“ترجمہ :بچے (کے بدن یا کپڑے )پر نجاست لگی ہو،اور وہ نمازی کی گود میں آ کر بیٹھ جائے اور بچہ (اس قابل ہو کہ ) گود میں خود رُک سکے ،یا نجس کبوتر نمازی کے سر پر بیٹھ گیا تو نماز درست ہے ،کیونکہ اس صورت میں نمازی حامل ِ نجاست (نجاست اٹھائے ہوئے )نہیں ،البتہ اگر ایسے بچے کو اٹھایا جو خود نہیں رک سکتا یعنی یہ کہا جائے کہ نمازی نے اس کو اٹھایا ہے ،تو نماز درست نہیں ۔(حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطھارت،صفحہ 158،مطبوعہ کراچی)

     امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”ہوشیار بچہ جس کے جسم و ثوب یقینا ناپاک ہوں ،خود آ کر مصلی پر بیٹھ جائے ،نماز جائز ہے، اگرچہ ختم نماز تک بیٹھا رہے کہ اس صورت میں مصلی خود حاملِ نجاست نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

     ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :”اگر بچے کے کپڑے یا بدن میں نجاست لگی ہے اور وہ اس قابل ہے کہ گود میں خود رک سکتا ہے، تو نماز جائز ہے کہ بچہ حامل ِ نجاست ہے ،ورنہ نماز نہ ہو گی کہ اب یہ خود حامل نجاست ہوا۔“(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 134، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     بچے کا بول و براز بھی نجاست غلیظہ ہے۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”کل ما یخرج من بدن الانسان مما یوجب خروجہ الوضوءاو الغسل فھو مغلظ کالغائط والبول۔۔۔ وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ اکلا او لا“ترجمہ:ہر وہ چیز جو بدن ِ انسانی سے نکل کر وضوءیا غسل کو واجب کر دے ،تو وہ نجاستِ غلیظہ ہے ،جیسے پاخانہ و پیشاب، یونہی بچے اور بچی کا پیشاب، بچے کھانا کھاتے ہوں یا نہ (کھاتے ہوں)۔(کتاب الطھارت، باب النجاسۃ واحکامہ،جلد1،صفحہ51، مطبوعہ کراچی)

     اور نمازی کے متعلق نجاستِ غلیظہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”نجاستِ غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے ،تو اس کا پاک کرنا فرض ہے،بے پاک کیے نماز پڑھ لی، تو ہو گی ہی نہیں ،اور قصداً پڑھی تو گناہ بھی ہوا ۔۔۔ اور اگر درہم کے برابر ہے، تو پاک کرنا واجب ہے کہ بے پاک کیے نماز پڑھی، تو مکروہِ تحریمی ہوئی یعنی ایسی نماز کا اعادہ واجب ہےاور قصداً پڑھی، تو گنہگار بھی ہوا ،اور اگر درہم سے کم ہے ،تو پاک کرنا سنت ہے کہ بے پاک کیے نماز ہو گئی، مگر خلاف ِ سنت ہوئی،اور اس کا اعادہ بہتر ہے۔‘‘(بھارِشریعت،جلد1،صفحہ 389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

     درہم کی مقدار کے متعلق تفصیل یہ ہےکہ:’’اگر نجاست گاڑھی ہے جیسے پاخانہ، لید، گوبر تو درہم کے برابر، یا کم یا زِیادہ کے معنی یہ ہیں کہ وزن میں اس کے برابر یا کم یا زِیادہ ہو اور درہم کا وزن شریعت میں اس جگہ ساڑھے چار ماشے زکوٰۃ میں تین ماشہ رتی ہے اور اگر پتلی ہو ،جیسے آدمی کا پیشاب اور شراب تو درہم سے مراداس کی لنبائی چوڑائی ہے اور شریعت نے اس کی مقدار ہتھیلی کی گہرائی کے برابر بتائی یعنی ہتھیلی خوب پھیلا کر ہموار رکھیں اور اس پر آہستہ سے اتنا پانی ڈالیں کہ اس سے زِیادہ پانی نہ رک سکے، اب پانی کا جتنا پھیلاؤ ہے اتنا بڑا درہم سمجھا جائے اور اس کی مقدارتقریباً یہاں کے روپے (روپے والے سکے)کے برابر ہے۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 2، صفحہ 389، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم