Nawafil Ki Jamat Karwana Kaisa?‎

نوافل کی جماعت کروانا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin:5166

تاریخ اجراء:20شعبان المعظم1438ھ17مئی2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ پندرہ شعبان المعظم کی شب یا اس جیسے دیگر مواقع پر کافی لوگ جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ نوافل کی جماعت جائز ہے یا نہیں ؟ برائے کرم اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثر ت یقینا رب تعالی کے قرب کا ذریعہ ہے ۔ یہاں تک کہ کل بروز قیامت فرائض کی کمی بھی نوافل سے پور ی کی جائے گی ۔

    چنانچہ بخاری شریف میں ہے:’’ولا یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ‘‘ترجمہ:اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ میرا بندہ نوافل کی کثرت سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں ۔

(صحیح البخاری ،کتاب الرقاق ، باب التواضع ، ج 2 ، ص 963 ، مطبوعہ کراچی)

    اورجامع ترمذی میں حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ان اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ من عملہ صلاتہ،فان صلحت فقد افلح وانجح،وان فسدت فقد خاب وخسر،فان ان تقص من فریضتہ شیء قال الرب عز وجل: انظروا ھل لعبدی من تطوع فیکمل بھا ما انتقص من الفریضۃ،ثم یکون سائر عملہ علی ذلک‘‘ ترجمہ:بروزِ قیامت بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا ،اگر نماز درست ہوئی تو بندہ کامیاب ہے اور اگر یہ درست نہ ہوئی تو بندہ خسارے میں ہوگا ،اگر فرائض میں کمی ہوئی تو رب عزوجل ارشاد فرمائے گا : کیا اس کے پاس نوافل ہیں کہ جن کے ذریعے فرائض کی کمی کو پورا کیا جائے ؟ پھر بقیہ اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہو گا ۔

(جامع ترمذی ،ابواب الصلاۃ ،اول ما یحاسب بہ العبد،ج1،ص94،مطبوعہ کراچی)

    رہا جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرنا تو اس کی دو صورتیں ہیں:(۱)بغیر تداعی کے نوافل کی جماعت کروانا (۲)تداعی کے ساتھ جماعت کروانا۔دونوں صورتوں کا حکم بمع دلائل مندرجہ ذیل ہے :

    (۱)بغیر تداعی کے نوافل کی جماعت کروانابالاجماع جائز ہے ۔ تداعی کا مطلب یہ کہ لوگوں کو جماعت کے لیے بلانا اور انہیں جمع کرنا اور اصح قول کے مطابق اگر امام کے علاوہ چار یا اس سے زائد مقتدی ہوں ، تو یہ تداعی ہے اور اگر اس سے کم ہوں ، تو نہیں۔

    چنانچہ صحیح بخاری و صحیح ابن حبان میں ہے۔واللفظ للبخاری:’’قال عتبان فغدا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابوبکر حین ارتفع النھار فاستاذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فاذنت لہ،فلم یجلس حین دخل البیت،ثم قال:این تحب ان اصلی من بیتک،قال:فاشرت لہ الی ناحیۃ من البیت،فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فکبر،فقمنا فصففنا،فصلی رکعتین ثم سلم‘‘ترجمہ:حضرت عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح دن چڑھے تشریف لائے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت طلب فرمائی ،میں نے اجازت دے دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور بیٹھنے سے پہلے فرمایا:تم اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہوجہاں میں نمازپڑھوں ؟ میں نے گھر کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا،پھرحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر تکبیر کہی اور ہم نے کھڑے ہو کر صف بنا لی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔

(صحیح بخاری،کتاب الصلاۃ،باب المساجد فی البیوت،ج1،ص60،مطبوعہ کراچی)

     اس حدیث ِمبارک کے تحت شرح صحیح بخاری لابن بطال اورعمدۃ القاری میں ہے۔واللفظ للاول:’’فیہ صلاۃ النافلۃ فی جماعۃ بالنھار‘‘ ترجمہ :اس حدیث ِ مبارک میں اس بات کا ثبوت ہے کہ دن میں با جماعت نوافل ادا کرنا ، جائز ہے ۔

(عمدۃ القاری،ج3،ص417،مطبوعہ ملتان)

    اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’جماعتِ نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مذہب معلوم ومشہوراور عامۂ کتب ِمذہب میں مذکورومسطور ہے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج7،ص430،رضا فائونڈیشن،لاھور)

    (۲)اگر نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ ہو ، تونماز ِ تراویح اورکسوف و استسقاء یعنی سور ج گہن اورطلب بارش کے لیے پڑھے جانے والے نوافل بھی بلا کراہت جائز ہیں ، جبکہ ان کے علاوہ دیگر نوافل بطورِتداعی جماعت کے ساتھ اداکرنا مکروہ ِتنزیہی و خلاف ِ اولی ہے،ناجائز وگناہ نہیں،البتہ اگر لوگ صلوٰۃ التسبیح ،صلوٰۃ التوبہ ،تہجد یا دیگر نوافل جماعت کے ساتھ ادا کریں ، تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ عوام الناس کی پہلے ہی نیکیوں میں رغبت کم ہے اور جو لوگ جماعت کی وجہ سے نوافل ادا کر لیتے ہیں ، اگر انہیں بھی منع کر دیا جائے ، تو ان کے بالکل ہی نوافل چھوڑ دینے کے امکان زیادہ ہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں ۔ اسی وجہ سے فقہاء کرام رحمہم اللہ السلام نے ایسی ممانعت سے منع فرمایاہے۔

    درمختار میں ہے’’یکرہ ذلک لو علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعۃ بواحد‘‘ترجمہ:تداعی کے طور پر نوافل کی جماعت مکروہ ہے ۔ تداعی کا مطلب یہ ہے کہ چار شخص ایک کی اقتداء کریں ۔

(درمختار،کتاب الصلاۃ،ج2،ص604،مطبوعہ کوئٹہ )

    اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’تراویح وکسوف واستسقاء کے سوا جماعت ِنوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب معلوم ومشہور اور عامہ کتب مذہب میں مذکور ومسطور ہے کہ بلاتداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ ۔ تداعی ایک دوسرے کو بلانا جمع کرنا اور اسے کثرت جماعت لازم عادی ہے

    بالجملہ دو مقتدیوں میں بالاجماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ اور تین اور چارمیں اختلاف نقل ومشائخ ،اور اصح یہ کہ تین میں کراہت نہیں، چار میں ہے، تو مذہب ِمختار یہ نکلاکہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں تو کراہت ہے ورنہ نہیں پھر اظہر یہ ہے کہ یہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ لمخالف التوارث، نہ تحریمی کہ گناہ وممنوع ہو ۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،ج7،ص 430تا431،مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور )

    مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’نفل غیر تراویح میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی ،چار کی نسبت کتب ِفقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں یعنی کراہت تنزیہہ جس کاحاصل خلاف اولیٰ ہے نہ کہ گناہ وحرام ۔  کما بیناہ فی فتاوٰنا(جیسا کہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں ذکر کردی ہے) اور بہت اکابر دین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کیے جائیں گے ۔ علمائے امت و حکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے۔‘‘

( فتاوی رضویہ،ج7،ص465،مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور )

    ایسی ممانعت سے علماء نے منع فرمایا ہے ۔چنانچہ نماز عید سے پہلے اور بعد نوافل ادا کرنے کے حوالے سے در  مختار میں ہے:’’ولا یتنفل قبلھا مطلقاوکذالا یتنفل بعدھا فی مصلاھا،فانہ مکروہ عند العامۃ وھذا للخواص اما العوام فلا یمنعون من تکبیر ولا تنفل اصلا لقلۃ رغبتھم فی الخیرات ان علیا رضی اللہ عنہ رای رجلا یصلی بعد العید فقیل اما تمنعہ یا امیر المؤمنین؟ فقال:اخاف ان ادخل تحت الوعید،قال اللہ تعالی{ارایت الذی ینھی عبدااذا صلی}‘‘ترجمہ:نماز عید سے پہلے گھراور عید گاہ دونوں میںاور عیدین کے بعد فقط عید گاہ میں نوافل ادا کرنا عامۃ الفقہاء کے نزدیک مکروہ ہے ،لیکن یہ حکم خواص کے لئے ہے ،بہر حال عوام کو تکبیرات اوران نوافل سے بالکل منع نہیں کیا جائے گا کہ عوام کی پہلے ہی نیکیوں میںرغبت کم ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو نماز عید کے بعد (عید گاہ میں )نوافل ادا کرتے دیکھا ،تو ان سے عرض کی گئی : اے امیر المومنین آپ اسے منع کیوں نہیں کرتے ؟ارشاد فرمایا:میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس وعید میں نہ داخل ہو جاؤں کہ اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا:بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے بندہ کو جب وہ نماز پڑھے۔

(تنویر الابصار مع در مختار،کتاب الصلاۃ ، باب العیدین،ج 3 ،ص57تا60،مطبوعہ کوئٹہ)

    بلکہ حدیقہ ندیہ میں لوگوں کو باجماعت نوافل اداکرنے سے روکنے کو اخلاق ِ مذمومہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔چنانچہ علامہ عبد الغنی نابلسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلاۃ الرغائب بالجماعۃ وصلاۃ لیلۃ القدر ونحو ذلک وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیھا ،لا یفتی بذلک للعوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلک ۔۔۔ صنف فی جوازھا جماعۃ من المتاخرین، فابقاء العوام راغبین فی الصلاۃ اولی من تنفیرھم منھا‘‘ترجمہ:اخلاق مذمومہ کی قبیل سے یہ بھی ہے کہ لوگوں کو صلوٰۃ الرغائب باجماعت ا دا کرنے،اورلیلۃ القدر کی رات اوراسی طرح دیگر مواقع پر نوافل ادا کرنے سے منع کر دیا جائے،اگرچہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ باجماعت نوافل ادا کرنا مکروہ ہے مگرلوگوں کو اس کی کراہت کا فتوی نہیں دیا جائے گاتا کہ نیکیوں میںان کی رغبت کم نہ ہو ،بلکہ علماء ِ متاخرین نے تو اس کے جواز پر لکھا بھی ہے،لہٰذا عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہے۔

(حدیقہ ندیہ ،الخلق الثامن والاربعون من الاخلاق الستین المذمومۃ،ج2،ص150،مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ،فیصل آباد )

 

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم