Niyat e Iqamat Ke Liye Shart Hai Ke Wo Jagah Iqamat Ki Salahiyat Rakhti Ho

نیتِ اقامت کے لیے شرط ہے کہ وہ جگہ اقامت کی  صلاحیت رکھتی ہو

مجیب:مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:106

تاریخ اجراء: 17ربیع الثانی1442ھ/03دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسافر کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس جگہ وہ مقیم ہونے کی نیت کرے وہ جگہ اقامت کے قابل ہو جیسے جنگل میں نیت نہیں ہو سکتی اب معلوم یہ کرنا ہے کہ نیوی کے جو افرادسمندر کے پانی میں رہتے ہیں وہ اقامت کی نیت کرسکتے ہیں یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسافر کی نیت اقامت درست ہونے کےلیے جو شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو جنگل یا دریا میں اقامت کی نیت کرنے سے مقیم نہ ہوگا، لہٰذا اگر کوئی سمند رکے پانی میں ہے اور وہ مقیم ہونے کی نیت کرتاہے، تو اس سے وہ مقیم نہ ہوگا۔

   بحرالرائق میں ہے : ’’وقید بالبلد والقریۃ  ،لان  نیۃ الاقامۃ  لاتصح فی غیرھما فلا تصح فی مفازۃ ولاجزیرۃ ولابحر ولاسفینۃ  وفی الخانیۃ و الظھیریۃ  و الخلاصۃ ثم نیۃ الاقامۃ لاتصح الا فی موضع الاقامۃ  ممن یتمکن من الاقامۃ وموضع  الاقامۃ العمران والبیوت المتخذۃ  من الحجر والمدر و الخشب لا الخیام والاخبیۃ والوبر" یعنی شہر اور قریہ کے ساتھ مقید کیاگیا ، کیونکہ اقامت کی نیت ان دونوں جگہوں کے علاوہ میں درست نہیں ،لہذا کشتی،سمندر ،جزیرہ (غیرآباد)اور جنگل میں اقامت کی نیت درست نہ ہوگی۔ نیز خانیہ،ظہیریہ اورخلاصہ میں ہے: پھر اقامت کی نیت فقط ان جگہوں میں درست ہے کہ جہاں اقامت ممکن ہو اور اقامت کی جگہ وہ عمارت اور گھر ہیں جنہیں پتھر ،لکڑی اور گارے سے بنایا جاتا ہے نہ کہ خیمے اور عارضی پناہ گاہیں ۔)بحر الرائق ،جلد2،صفحہ 232، مطبوعہ کوئٹہ (

   بہارشریعت میں ہے :’’وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو جنگل یا دریا یا غیر آباد ٹاپُو میں اقامت کی نیت کی ،مقیم نہ ہوا۔‘‘)بہارشریعت ،جلد1،صفحہ744، مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی (

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم