Qibla Rukh Azan Dene Ke Hawale Se Tafseel

قبلہ رخ اذان دینے کے حوالے سے تفصیل

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1910

تاریخ اجراء:01صفرالمظفر1445ھ/19اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا قبلہ رخ اذان دینا ضروری ہے؟ اگر قبلہ رخ اذان نہ دی گئی تو کیا اذان نہیں ہوگی؟نیز قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت میں اذان دینے والا گنہگار ہوگا یا نہیں؟اورنیز بہار شریعت میں قبلہ کے  خلاف اذان دینے کو مکروہ لکھا ہے تو یہ مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قبلہ رخ  اذان دینا سنت ِمتواترہ و متوارثہ ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے اذان  دینے کا یہی طریقہ معہود و معمول رہا ہے۔لہذا قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت اذان دینا،خلافِ سنت و مکروہ تنزیہی ہے  اور ایسی اذان کا اعادہ یعنی دوبارہ سے قبلہ کی طرف رخ کرکے اذان کہنامستحب ہے تاکہ اذان سنت طریقہ پر ادا ہوجائے۔البتہ قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت اذان دی گئی تو یہ اذان دینا جائز ہوگا ، دینے والا گنہگار  نہیں ہوگا اور اذان  بھی ہوجائے گی   کیونکہ اذان سے جو مقصود تھا یعنی لوگوں کو نماز کے لئے بلانا ،تو وہ  قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت اذان دینے سے بھی حاصل ہوگیا ۔  نیز بہار شریعت میں جو قبلہ کے  خلاف اذان دینے کو مکروہ لکھا ہے تو اس سے بھی مکروہ تنزیہی مراد ہے۔

   تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی میں ہے: ’’ويستقبل بهما القبلة؛ لأن بلالا كان يؤذن ويقيم مستقبل القبلة والملك النازل أذن وأقام كذلك؛ ولأنهما مشتملان على الثناء وأحسن أحوال الذاكرين استقبال القبلة ولو ترك الاستقبال جاز لحصول المقصود وهو الإعلام ويكره لتركه المتوارث(أي المعهود في زمنه - صلى اللہ عليه وسلم - وأصحابه)‘‘ترجمہ:اور اذان و اقامت میں قبلہ  کی طرف رخ ہو کیونکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ  اذان و اقامت قبلہ رو دیا کرتے اور آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے نے بھی اسی طرح اذان و اقامت کہی تھی اور قبلہ رخ اذان و اقامت اس لئے بھی کہی جائے کیونکہ یہ دونوں ثنا پر مشتمل ہیں اور ذکر کرنے والوں کی بہترین حالت قبلہ رخ ہونا ہے۔اور اگر قبلہ رخ ،اذان و اقامت نہ کہی تو یہ جائز ہے کیونکہ مقصود  حاصل ہوگیا اور وہ  خبر دینا ہے ہاں ایک متوارث  یعنی وہ عمل  جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے زمانہ  سے معہود و معمول ہے اس کے ترک کی وجہ سے ایسا کرنامکروہ ہوگا۔(تبیین الحقائق ، کیفیۃ الاذان والاقامۃ، جلد1، صفحہ91،دار الکتاب الاسلامی)

   تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(ویستقبل القبلۃ بھما)ویکرہ ترکہ تنزیھا‘‘ ترجمہ: اذان و اقامت قبلہ رخ کہے،اور خلاف قبلہ  اذان دینا مکروہ تنزیہی ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار،جلد2،صفحہ69،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(ویعاد اذان جنب ندبا)زاد القھستانی: والفاجر والراکب والقاعد والماشی والمنحرف عن القبلۃ وعلل الندب بانہ معتد بہ الا انہ ناقص‘‘ترجمہ:مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہ جنبی کی  اذان کا اعادہ  کیا جائے گا استحبابی طور پر۔قہستانی نے مزید کچھ افرادکو زائد کیا کہ فاجر ،سوار ،بیٹھ کر،چل کر اور قبلہ  سے ہٹ کر اذان دینے والے کی بھی اذان کا استحبابی طور پر  اعادہ  کیا جائے گا  اور اعادہ کے مستحب ہونے کی یہ وجہ بیان کی کہ یہ اذان    شرعاً ہوگئی مگر(خلاف سنت و مستحب  ہونے کی وجہ سے) ناقص طور پر ادا ہوئی۔ (رد المحتار علی الدر المختار، باب الاذان،جلد2، صفحہ75،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم