Ramzan Me Azan e Magrib Aur Namaz Ke Doran 10 Mint Ka Break Karna Kaisa ?

رمضان میں اذان مغرب اور نماز کے دوران 10 منٹ کا وقفہ کرنا کیسا ؟

مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6937

تاریخ اجراء: 24شعبان المعظم1443ھ 28 مارچ 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ

(1)ہمارے ہاں عام طور پر رمضان المبارک میں افطار کے وقت اذانِ مغرب دی جاتی ہے اور پھر دس منٹ کا وقفہ کیا جاتا ہے ، تاکہ عوام افطاری کر لے اور پھر نمازِ مغرب ادا کی جاتی ہے، کیا اذانِ مغرب اور نمازِ مغرب میں یہ دس منٹ کا وقفہ کرنا شرعاً درست ہے؟

(2) کیا اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے رمضان میں روزہ اذان کے ساتھ افطار کرنا لازمی ہے؟ اگر وقت پورا ہونے پر کوئی اشارہ مل جائے، مثلاً: مسجد میں اعلان ہو جائے کہ روزہ دار روزہ افطار کر لیں،تو اس سے بھی روزہ افطار کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

(3) اگر اذانِ مغرب اور نمازِ مغرب کے درمیان دس منٹ کے وقفہ کی قباحت سے بچنے کے لیے روزہ اعلان کے ساتھ افطار کرا دیا جائے اور پھر افطار کے دس منٹ بعد اذان دی جائے، پھر اذان کے فوراً بعد نماز ادا کر دی جائے، تو اس طریقہ کار کے بارے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)سورج غروب ہونے کا جب یقین ہو جائے، تو اذان مغرب  میں تاخیر نہ کی جائے  اور اذان کے بعد بلا تاخیر جماعت قائم کی جائے،جب کہ تاخیر کا کوئی شرعی عذر نہ ہو، کیونکہ مغرب کی نماز ہمیشہ یعنی سردی و گرمی میں غروب آفتاب کے بعد جلدی پڑھنا مستحب ہے، اس میں دو رکعت پڑھنے کی مقدار سے زیادہ کی بلا عذر تاخیر مکروہ تنزیہی اور اتنی تاخیر کہ چھوٹے چھوٹے ستارے بھی نظر آنے لگیں مکروہ تحریمی ہے۔

اور  اگر کوئی خاص شرعی عذر ہو ،تو اذان  اور جماعت کے درمیان کچھ دیر کی تاخیر ہو سکتی ہے، جیسے اگر کچھ لوگ وضو کر رہے ہیں، تو ان کے انتظار میں چند منٹ تاخیر کرنے کی علماء نے اجازت دی ہے، اسی طرح رمضان المبارک میں علمائے کرام نے آٹھ دس منٹ تک تاخیر کی اجازت دی ہے، تاکہ لوگ افطاری کر کے بآسانی مسجد میں جماعت کے ساتھ  شریک ہو کرنماز ادا کر سکیں اور یہ شرعاً مطلوب بھی ہے ، کیونکہ کھانا حاضر ہو اور بھوک کی شدت بھی ہو، کھانے کی طرف اشتہاء ہو اور نماز کے دوران بھوک کی وجہ سے کھانے کی طرف  دل لگا رہنے کا گمان ہو ،تو جماعت چھوڑ کر کھانا کھانے کی فقہاء نے اجازت دی  ہے، تو روزے کی حالت میں پورا دن بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سےعموماً افطار کے وقت یہی کیفیت ہوتی ہے،لہذا رمضان المبارک میں مغرب کی  اذان اور جماعت کے درمیان دس منٹ کا وقفہ کرنا شرعاً درست ہے، تا کہ لوگ کچھ کھا پی کر جماعت میں شریک ہوں۔

حدیث مبارک میں ہے، نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”إن أول وقت المغرب حین تغرب الشمس و إن اٰخر وقتھا حین یغیب الشفق“یعنی مغرب کا اول وقت اس وقت ہے  کہ سورج غروب ہو جائے، اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب شفق ڈوب جائے۔(ترمذی ، جلد 1، صفحہ 40،مطبوعہ  کراچی)

   در مختار میں ہے:” و المستحب تعجیل مغرب مطلقاً و تأخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیھاً“ اور مغرب میں ہمیشہ جلدی کرنا مستحب ہے اور دورکعتوں کی مقدار تاخیر مکروہ تنزیہی ہے۔

   اس کے تحت علامہ شامی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ”أفاد أن المراد بالتعجیل أن لا یفصل بین الأذان و الإقامۃ بغیر جلسۃ أو سکتۃ علی الخلاف، و أن ما فی ’’القنیۃ‘‘ من استثناء التأخیر القلیل محمول علی مادون الرکعتین، و أن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیھاً، و ما بعدہ تحریماً إلا بعذر کما مر‘‘اس سے فائدہ ظاہر ہوا کہ تعجیل سے مراد یہ ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان بغیر بیٹھے اور بغیرسکتہ کے فاصلہ نہ کرے، یہ مسئلہ اختلافی ہے اور جو ’’قنیہ‘‘ میں تھوڑی تاخیر کا استثناء ہے، وہ دو رکعتوں سے کم پر محمول ہے، اور جو اس قلیل  سے  زائد، ستاروں کے ظاہر ہونے تک (یعنی ستاروں کے گچھے نمودار  ہونے سے پہلے تک )تاخیر ہے، وہ مکروہ تنزیہی ہے، اور اس کے بعد(کہ جب چھوٹے چھوٹے ستارے بھی نظر آنا شروع ہوجائیں تو ) مکروہ تحریمی ہے،  مگریہ کہ  عذر کی بنا پر ہو (تو مکروہ تحریمی نہیں)، جیسا کہ پہلے گزرا ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد2، صفحہ35،مطبوعہ  پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”غروب کا جس وقت یقین ہو جائے، اصلاً دیر اذان و افطار میں نہ کیا جائے، اس کی اذان و جماعت میں فاصلہ نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 321، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” روز ابر کے سوا مغرب میں ہمیشہ تعجیل مستحب ہے اور دو رکعت سے زائد کی تاخیر مکروہ تنزیہی اور اگر بغیر عذر سفر و مرض وغیرہ اتنی تاخیر کی کہ ستارے گُتھ گئے، تو مکروہ تحریمی۔(بھار شریعت، جلد 1،حصہ 3،صفحہ 453،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   وضو کرنے والے لوگوں کے لیے مغرب کی اذان کے بعد جماعت میں تاخیر  اور انتظار کرنے کے بارے میں صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”اس انتظار میں کچھ حرج نہیں کہ اعانت علی البر ہے، قال اللہ تعالیٰ﴿تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى﴾ “غنیہ میں ہے:”و ینبغی للمؤذن أن ینتظر الناس و إن بضعیف مستعجل أقام لہ(فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ 168،مکتبہ رضویہ، آرام باغ روڈ، کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن جماعت کے وقت کھانا تیار ہو کر سامنے آجانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”جماعت تیار ہے اور کھانا سامنے آیا اور وقت تنگ نہ ہو جائے گا اور پہلے جماعت کو جائے ،تو بھوک کے سبب دل کھانے میں لگا رہے یا کھانا سرد ہو کر بے مزہ ہو جائے گا یا اس کے دانت کمزور ہیں، روٹی ٹھنڈی ہو کر نہ چبائی جائے گی، تو اجازت ہے کہ پہلے کھانا کھالے اور اگر کھانے میں کوئی خرابی یا دقت نہ آئے گی، نہ اسے ایسی بھوک ہے، تو جماعت نہ کھوئے۔(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 229، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    (2)روزہ کھولنے کے لیے مغرب کی اذان کا ہونا یا اذان کا انتظار کرنا ضروری نہیں، جس بھی طریقے سے غروب کا یقین ہو جائے، اس کے بعد روزہ افطار کیا جا سکتا ہے، اذان تو مغرب کی نماز کے لیے ہوتی ہے۔

سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”جب مشرق سے سیاہی بلند ہو اور مغرب میں دن چھپے اور آفتاب ڈوبنے پر یقین یعنی پورا ظن غالب ہو جائے، اس وقت افطار کیا جائے، اس کے بعد دیر لگانا نہ چاہیے، یہی علامات حدیث میں ارشاد ہوئیں اور جو عالم مقتدا ہو اور علم توقیت جانتا ہو اور اسے قرائن صحیحہ سے غروب کا یقین ہو گیا ہو، وہ افطار کا فتوی دے سکتا ہے، اگرچہ بعض نا واقفوں کو غروب میں ابھی تردد ہو۔“(فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 325، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مفتی جلال الدین امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”سورج ڈوبنے کے بعد بلا تاخیر فوراً افطار کریں، اذان کا انتظار نہ کریں اور جو لوگ اذان سے غروب آفتاب پر مطلع ہوتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اذان ہوتے ہی فوراً افطار کریں، ختم اذان تک افطار کو مؤخر نہ کریں، حدیث شریف میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”إن أحب عبادی إلی أعجلھم فطراً“ یعنی مجھے اپنے بندوں میں وہ شخص زیادہ پیارا ہے، جو ان میں سب سے زیادہ جلد افطار کرتا ہے۔

   اس لیے سید ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سورج ڈوبنے سے پہلے کسی صحابی کو حکم فرماتے کہ وہ بلندی پر جا کر سورج کو دیکھتا رہے، صحابی سورج کو دیکھتے رہتے اور حضور ان کی خبر کے منتظر رہتے، جیسے ہی صحابی عرض کرتے کہ سورج ڈوب گیا ، حضور فوراً خرما تناول فرماتے۔(فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ 513، شبیر برادر، لاھور)

    (3)اس کا جواب پہلے اور دوسرے سوالات کے جوابات میں آ گیا کہ سورج غروب ہونے کا جب یقین ہو جائے ،تو اذان مغرب  میں تاخیر نہ کی جائے، بلکہ فوراً اذان دی جائے اور رمضان المبارک میں عذر کی وجہ سے مغرب کی  اذان اور جماعت کے درمیان دس منٹ کا وقفہ کرنا شرعاً درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا اب روزہ کھولنے کے لیے  اذان کے علاوہ کسی اور اعلان وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم