Sahib e Tarteeb Witr Ki Qaza Yaad Hote Hue Fajar Ke Farz Parh Le To Kya Hukum Hai?

صاحبِ ترتیب  نے وتر  کی قضا  یاد ہوتے ہوئے فجر کے فرض پڑھ لیے تو کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12495

تاریخ اجراء:        27ربیع الاول1444 ھ/24اکتوبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   صاحبِ ترتیب قضا وتر یاد ہوتے ہوئے فجر کے فرض پڑھ لے تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق صاحبِ ترتیب کے لیے فرض نماز اور وتر کے مابین ترتیب قائم رکھنا بھی ضروری ہے، لہذا اگر صاحبِ ترتیب قضا وتر  یاد ہوتے ہوئے فجر کے فرض ادا کرلے تو اس کی وہ نمازِ فجر  ادا نہیں ہوگی بشرطیکہ  وقت میں گنجائش موجود ہو۔

   فرض نماز اور وتر کے مابین ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے۔ جیسا کہ مجمع الانھرمیں ہے :” (الترتیب بین الفائتۃ )فرضاً اوواجباً (والوقتیۃ بین الفوائت شرط)“یعنی فوت  ہونے والے فرض ، یا واجب اور وقتی نماز کے درمیان یونہی فوت ہوجانے والی نمازوں کے درمیان ترتیب قائم رکھنا شرط ہے ۔(مجمع الانھر، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 214، مطبوعہ کوئٹہ )

   قضا وتر یاد ہوتے ہوئے نمازِ فجر ادا کی تو وہ نماز فاسد ہوگی۔ جیسا کہ فتاوٰی  عالمگیری میں ہے: الترتیب بین الفائتۃ و الوقتیۃ و بین الفوائت مستحق کذا فی الکافی۔۔۔و کذا بین الفرض و الوتر ھکذا فی شرح الوقایۃ و لو صلی الفجر و ھو ذاکر انہ لم یوتر فھی فاسدۃ عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ“ یعنی قضا اور ادا نمازوں کے مابین اور قضا نمازوں کے مابین ترتیب قائم رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ کافی میں مذکور ہے۔۔۔اسی طرح فرض اور وتر کے مابین بھی ترتیب کا پایا جانا ضروری ہے، شرح الوقایہ میں یونہی  مذکور ہے۔  لہذا اگرصاحبِ ترتیب  نے فجر کی نماز ادا کرلی حالانکہ اسے اس بات کا علم تھا کہ اس نے وتر ادا نہیں کیے، تو امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک اس کی وہ فجر کی نماز فاسد ہوگی۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی عشر في قضاء الفوائت، ج 01، ص 121، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   بہار شریعت میں ہے:”پانچوں فرضوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشا پھر وتر پڑھے، خواہ یہ سب قضا ہوں یا بعض ادا بعض قضا، مثلاً ظہر کی قضا ہوگئی تو فرض ہے کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھے یا وتر قضا ہوگیا تو اُسے پڑھ کر فجر پڑھے اگر یاد ہوتے ہوئے عصر یا فجر  کی پڑھ لی تو ناجائز ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 703، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:” صاحبِ ترتیب کے ليے اگر یہ یادہے کہ نماز وتر نہیں پڑھی ہے اور وقت میں گنجائش بھی ہے تو فجر کی نماز فا سد ہے، خواہ شروع سے پہلے یاد ہو یا درمیان میں یاد آجائے۔ (بہار شریعت، ج 01، ص 653، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم