Sajda-e-Sahw Mein 2 Ke Bajaye 3 Sajde Kar Liye To Kya Hukum Hai?

سجدہ سہو میں دو کی بجائے تین سجدے کر لیے ،تو کیاحکم ہے ؟

مجیب:ابوواصف محمد آصف عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-1190

تاریخ اجراء:15صفرالمظفر1445ھ/02ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی شخص نے نمازمیں سجدہ سہوکرتے ہوئے  بھول کردوکی بجائے تین سجدے کر لیے، تواس کے لیے کیاحکم ہے؟

   سجدہ سہو میں دو کی بجائے تین سجدے کر لیے ،تو کیاحکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس شخص نے سجدہ سہو کرتے ہوئے بھول کردو کی بجائے تین سجدے کرلیے ،تواس کی نماز  ہوگئی اوراس مزیدبھول کے سبب  اس پرکوئی سجدہ سہووغیرہ لازم نہیں ہوگا، بلکہ وہی پہلے والے دو سجدے ہی اس کے ازالے کے لیے کافی ہیں؛ کہ اگر چہ دو سجدے کرنا واجب اور بھول کرتیسرا سجدہ کرنا ترک واجب ہوا، جس کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہونا چاہیے تھا، لیکن شریعت مطہرہ نے ایک نماز میں ایک سے زیادہ دفعہ سجدہ سہو کرنے کو غیر مشروع قرار دیا ہے۔ لہذا ایک  ہی مرتبہ کا سجدہ سہو   کافی ہے۔

   امام شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” قال: (وإذا سها في صلاته مرات لا يجب عليه إلا سجدتان) لقوله صلی اللہ علیہ وسلم : ”سجدتان تجزئان عن كل زيادة أو نقصان“ ولأن سجود السهو إنما يؤخر إلى آخر الصلاة لكي لا يتكرر في صلاة واحدة بتكرر السهو --- وإذا سجد للسهو قبل السلام أجزأه؛ لأن فعله حصل في موضع الاجتهاد، ولأنا لو أمرناه بالإعادة بعد التسليم كان ساجدا للسهو مرتين في صلاة واحدة ولم يقل بها أحد، --- قال: (وإن كان شك في سجود السهو عمل بالتحري ولم يسجد للسهو) لما بينا أن تكرار سجود السهو في صلاة واحدة غير مشروع، ولأنه لو سجد بهذا السهو ربما يسهو فيه ثانيا وثالثا فيؤدي إلى ما لا نهاية له“ ترجمہ: جب کسی شخص سے نماز میں چند مرتبہ سہو واقع ہوا، تو اس پر صرف بطور سجدہ سہو دو ہی سجدے واجب ہیں، کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: دو سجدے تمام زیادتی و نقصان کو کافی ہیں، اور سجدہ سہو کو آخر نماز تک مؤخر کیا جائے گا تاکہ سہو کے متکرر ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کی تکرار لازم نہ آئے، اور جب سلام سے قبل سجدہ سہو کر لیا، تو یہ اس (سجدہ سہو میں یا سہو یا اس کے بعد ہونے والے سہو) کو بھی کافی ہے، اس لیے کہ اس کا ایسا کرنا موضع اجتہاد میں واقع ہوا ہے کہ اگر اس کو سلام کے بعد اعادہ کا حکم دیا جائے، تو وہ ایک نماز میں دو سجدے کرنے والا ہوگا اور اس کا کوئی قائل نہیں، اور مصنف علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اگر سجدہ سہو میں شک واقع ہو، تو تحری کرے اور مزیدسجدہ سہونہ کرے،کیونکہ  ہم نے بیان کر دیا ہے کہ ایک نماز میں سجدہ سہو کی تکرار جائز نہیں کہ اگر اس بھول کی وجہ سے مزید سجدہ سہو کرے، تو ہو سکتا ہے کہ اس مزید سجدہ سہو میں پھر بھول ہو جائے، تو پھر تیسری مرتبہ سجدہ سہو کرے گا، پھر تیسرے میں بھول ہو گئی، تو پھر سجدہ سہو کرے گا، اس طرح تو سجدہ سہو کی کوئی حد ہی نہیں رہے گی۔  (مبسوط سرخسی، جلد1، صفحہ244، باب سجود السھو، دار المعرفہ، بیروت)

   علامہ علاء الدین سمرقندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”ولو سها في سجود السهو لا يجب عليه السهو لأن تكرار سجود السهو غير مشروع، لأنه لا حاجة لأن السجدة الواحدة كافية على ما قال عليه السلام سجدتان تجزئان عن كل زيادة ونقصان“ ترجمہ: اگر سجدہ سہو میں بھول ہو گئی، تو مزید سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، کیونکہ سجدہ سہو کی تکرار مشروع نہیں ہے،کیونکہ اس کی کوئی حاجت نہیں اس لیے کہ ایک بارسجدہ سہوکرناکافی ہے،نبی پا ک علیہ السلام کے فرمان پرکہ دو سجدے تمام زیادتی و نقصان کو کافی ہیں۔ (تحفۃ الفقھاء، جلد1، صفحہ215، باب السھو، دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم