Sajda e Shukr Ke Liye Wuzu Aur Qibla Roo Hona Zarori Hai?

سجدۂ شکر کے لیے وضو اور قبلہ رُو ہونا ضروری ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Nor-10101

تاریخ اجراء:13ذوالقعدہ1440ھ/17جولائی2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ بعض لوگ کسی خوشی کےملنے پر وضواور استقبال قبلہ کا خیال کیے بغیرسجدہ شکر ادا کر دیتے  ہیں،کیا اس طرح سجدہ شکر ادا کرنا درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کسی نعمت کےملنے پرسجدہ شکر کرنامستحب ہے،سجدہ شکر کامسنون طریقہ یہ  ہےکہ سجدہ کرنےوالا باوضو ہوکر قبلے کی طرف  منہ کرے اور اللہ اکبر کہتا ہوا سجدے میں جائے اورسجدےمیں تین بار سبحن ربی الاعلیٰ پڑھےاورپھر اللہ اکبر کہتاہوا سجدے سے کھڑا ہو جائے ۔ کھڑے  ہوکر سجدےمیں جانااور سجدے کے بعد کھڑاہونا ،یہ دونوں قیام مستحب ہیں۔

    سجدہ شکر کے صحیح ہونے کےلیےسجدہ تلاوت کی طرح نماز کی شرائط میں سےان شرائط کاپایا جانا ضروری ہے۔(1) حکمی اور حقیقی طہارت (2)ستر عورت(3)استقبال قبلہ(4)نیت۔اگرمذکورہ شرائط میں سے  ایک شرط بھی کم ہو ، تو سجدہ شکر اد انہیں ہوگا ، لہٰذا جولوگ وضو اور استقبال قبلہ کا خیال کیے بغیرسجدہ کرتےہیں ، ان کا  سجدہ ادا نہیں ہوگا۔یونہی سجدہ شکر ادا کرتےہوئے وقت کا خیا ل کرنا بھی ضروری ہے کہ جن اوقات میں نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے،ان اوقات میں سجدہ شکر بھی ادا نہیں کرسکتے۔

    ردالمحتارمیں علامہ شامی علیہ الرحمۃ سجدہ شکرکےمتعلق فرماتے ہیں:”وھی لمن تجددت عندہ نعمۃظاھرۃ اورزقہ اللہ تعالیٰ مالا او ولدا اواندفعت عنہ نقمۃونحو ذالک،یستحب لہ ان یسجد للہ تعالیٰ شکرامستقبل القبلۃیحمداللہ تعالی فیھا ویسبحہ  ثم یکبرفیر فع رأسہ کما فی سجدۃ التلاوۃ “یعنی سجدہ شکر اس شخص کےلیے جسےکوئی نعمت ملے یا اللہ عزوجل اسے مال  یا اولاد عطاکرے یااس سے کوئی مصیبت دور ہوئی ہو،اور اسی کی مثل دیگر نعمتوں کے ملنے پر،اوراس  کےلیے مستحب یہ ہےکہ وہ استقبال قبلہ کرکے بطور شکر اللہ عزوجل کو سجدہ کرے اور سجدےمیں اللہ عزوجل کی حمد بیان کرے ،اس کی تسبیح بیان کرے،  پھر اللہ اکبر کہتاہوا سجدے سے سر اٹھائےجیساکہ سجدہ تلاوت میں کرتاہے۔

(ردالمحتار،ج02،ص720،مطبوعہ کوئٹہ)

    مراقی الفلاح میں سجدہ شکرکاطریقہ بیان کرتےہوئےفرمایا:”وھیئتھا ان یکبر مستقبل ا لقبلۃ ویسجد ،فیحمد اللہ ویشکر ویسبح ثم یکبر فیرفع رأسہ مثل سجدۃ التلاوۃ بشرائطھا “یعنی سجدہ شکر کا طریقہ یہ ہےکہ قبلے کی طرف منہ کرکے تکبیر تحریمہ کہے اورسجدہ کرے اوراللہ کی حمدبیان کرے،شکر ادا کرے ،تسبیح پڑھے، پھر تکبیر کہتا ہواسر اٹھائے سجدہ تلاوت کی مثل ا س کی شرائط کے ساتھ ۔      

    اسی میں کچھ صفحات پہلے سجدہ تلاوت کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرمایا :”وشروط لصحتھا ان تکون شرائط الصلاۃ ،موجودۃ فی الساجد وھی الطھارۃ من الحدث والخبث وستر العورۃ واستقبال القبلۃ وتحریھا عند الاشتباہ والنیۃ الا التحریمۃ “یعنی سجد ہ تلاوت کے صحیح ہو نے کی شرائط وہی ہیں جو نماز کی شرائط ہیں ،جوکہ سجدہ کرنےوالے میں پائی جانی چاہیے ،اوروہ شرائط یہ ہیں حدث سے طہارت ، ستر عورت ، استقبال قبلہ ،اشتباہ کے وقت استقبال قبلہ کی تحری اور نیت ،تکبیرتحریمہ کے علاوہ۔

(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،ج2،ص106،110،مطبوعہ کراچی )

    حلبۃ المجلی میں ہے:” شرائط جوازھا ماھو شرائط جواز الصلاۃ من الطھارۃ من الاحداث والانجاس بدنا ثوباومکاناو ستر العورۃواستقبال القبلۃ حالۃ الاختیار وجھۃ التحری حالۃ الاشتباہ حتی لواشتبھت  علیہ القبلۃفی مکان یجوز لہ فیہ التحری،فتحری وسجد الی جھۃ فظھر انہ اخطاالقبلۃأجزأہ کما فی الصلاۃ والنیۃ لانھا عبادۃ “یعنی سجدہ تلاوت کےصحیح ہونےکی شرائط وہ ہیں جو نماز کے جواز کی شرائط ہیں۔ یعنی بدن ،کپڑے اور مکان کا حدث اور نجاست سے پاک ہونا اورستر عورت،عام حالات میں استقبال قبلہ اور اشتباہ کے وقت تحری کرنا ،یہاں تک کہ اگرکسی پر قبلہ مشتبہ ہوجائے  ،تو اس کےلیے تحری کرنا ، جائزہے ،تو وہ تحری کرے گا اور اس جہت کی طرف منہ کرکے سجدہ کرےگا،اس سےظاہرہوگیاکہ اگراس وجہ سےاستقبال  قبلہ  میں خطاکرتاہے تو سجدہ درست ہے ،جیساکہ نماز میں ہوتاہے،اور نیت بھی شرط ہےکہ یہ عبادت ہے۔

(حلبۃا لمجلی ،ج1،ص590،مطبوعہ بیروت )

    فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے”شرائط جوازھاماھوشرائط جوازالصلاۃمن طھارۃالبدن عن الحدث والجنابۃ،وطھارۃ الثوب عن النجاسۃوسترالعورۃاوستقبال القبلۃ “یعنی سجدہ تلاوت کے صحیح ہونے کی شرائط نمازکےصحیح ہونےکی شرائط میں سےبدن کا حدث اور جنابت سے پاک ہونا،کپڑوں کا نجاست سے پاک ہونا ،ستر عورت او  راستقبال قبلہ  ہیں۔

(فتاویٰ تاتارخانیہ  ،ج2،ص463،مطبوعہ  ھند ) 

    حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:”سجدۃ الشکر تکرہ فی وقت یکرہ النفل فیہ لافی غیرہ“یعنی جن اوقات میں نفل پڑھنا مکروہ ہے ان اوقات میں سجدہ شکر بھی مکروہ ہے ،ان کے علاوہ میں نہیں ۔

(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ج1، ص260، مطبوعہ  کراچی)

    مکروہ وقت میں سجدہ شکرکرنے کےمتعلق ردالمحتارمیں ہے:”فتحصل من کلام النھرمع کلام القنیۃانھاتصح مع الکراھۃ لانھا فی حکم النافلۃ“یعنی نہر اور قنیہ کے کلام کاخلاصہ  یہ ہےکہ مکروہ اوقات میں سجد ہ شکر کراہت کے ساتھ ادا ہوجائےگا ،کیونکہ یہ نفل نماز کے حکم میں ہے۔                                                                                                                            

(ردالمحتار،ج02،ص38،مطبوعہ کوئٹہ)

    امام اہلسنت نے فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر عبادت کی اقسام بیان کرتےفرمایا:”مقصودہ مشرو طہ جیسے نماز ،نماز جنازہ ،سجدہ تلاوت،سجدہ شکر ،کہ سب مقصود بالذات ہیں اور سب  کےلیے طہارت کاملہ شرط یعنی نہ حدث اکبرہو نہ اصغر ۔“

 (فتاویٰ رضویہ  ،ج03 ،ص557،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن )

    مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں :”سجدہ شکر مثلاًاولاد ہوئی ،یامال پایا یاگمی ہوئی چیز مل گئی یامریض نے شفا پائی ، یامسافر واپس آ یا ، غرض کسی نعمت پر سجدہ شکر کرنا مستحب ہے ،اس کا طریقہ وہی ہے جو سجدہ تلاوت کا ہے ۔“

    چنانچہ سجدہ تلاوت کا طریقہ بیان  کرتے ہوئےاس سےچند صفحات پہلے فرمایا:”سجدہ کا مسنون طریقہ یہ ہےکہ کھڑاہو کر اللہ اکبر کہتاہوا سجدہ میں جائے اورکم سے کم تین بار سبحن ربی الاعلیٰ کہے ،پھر اللہ اکبر کہتاہوا کھڑاہوجائے ۔ پہلے اور پیچھے دونوں بار اللہ اکبر کہنا سنت ہےاور کھڑے ہوکر سجدہ میں جانااور سجدے کےبعدکھڑاہونا ،یہ دونوں قیام مستحب ۔“

(بہار شریعت  ،ج01 ،ص734،741،مکتبۃالمدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم