Sajda Sahw Ka Ek Sajda Reh Gaya To Namaz Ka Hukum

سجدہ سہو کا ایک سجدہ رہ گیا تو نماز کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7812

تاریخ اجراء: 23رمضان المبارک1443ھ/25اپریل2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ  نمازی نے بھول کر سجدہ سَہْو کے دوسجدوں میں سے ایک کیا  اور نماز مکمل کر لی،  تو نماز کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     کسی شخص کو نماز میں سَہْو ہوا، لیکن اس نے بھول کر دوسجدوں کے بجائے ایک ہی سجدہ کیا اور سلام پھیر دیا تو یہ ایک سجدہ کر لینا کافی نہیں ہوگا ،کیونکہ بھول کر ہونے والی غلطی کی تلافی کے لیے دو سجدے کرنا ضروری ہے، جسے ”سجدہ سہو“ کہتے ہیں۔  حدیثِ مبارک  اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کے عمل سے  یہی ثابت ہے،  لہٰذا اگر کسی نے ایک سجدہ کیا اورسلام پھیر کر  نماز مکمل کر لی مگر فوراً یاد آگیا کہ میرا ایک سجدہ باقی ہے تو اگر کوئی ایسا کام نہیں کیا ، جو نماز کے منافی ہو، مثلاً گفتگو وغیرہ،   تو اُسی وقت دوبارہ قعدہ کے انداز میں بیٹھ کر ایک بقیہ سجدہ کرے، تشہد وغیرہ پڑھے اور نماز مکمل کر لے، اِس مسئلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ صرف وہی سجدہ کرنا ہو گا جو رہ گیا تھا،  یعنی سجدہ سَہْو میں ایک سجدہ بھول جانے کے سبب دوبارہ  سہو کے دو سجدے  واجب نہیں ہو ں گے۔

     البتہ اِسی مسئلہ کی دوسری صورت یہ ہے کہ  مذکورہ صورتِ حال کے برعکس   اگر نمازی نے منافی نماز عمل کر لیا تھا، مثلاً قہقہہ لگایا، گفتگو کی یا مسجد سے باہر چلا گیا  ، تو اِس صورت میں نماز  مکروہِ تحریمی ہو جانے کی وجہ سے ناقِص طور پر ادا ہوئی اور ہر وہ نماز کہ جو مکروہِ تحریمی کے سبب ناقِص ہو جائے اُسے  دوبارہ  پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔

     سجدہ سہو کے لئے دو سجدے کرنا ضروری ہے، چنانچہ ترمذی شریف میں ہے:”أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم صلی  بھم فسھا فسجد سجدتین ثم تشھد ثم سلم“ترجمہ:بیشک نبی اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نےصحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ کو دورانِ نماز سَہْو ہوا، پس آپ نے دو سجدے کئے پھر  دوبارہ تشہد پڑھی اور سلام پھیرا۔(جامع الترمذی، جلد1، صفحہ420، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)

     علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں:”لأنه صلى اللہ عليه وسلم، سجد سجدتين للسهو وهو جالس بعد التسليم وعمل به الأكابر من الصحابة والتابعين“ترجمہ:نبی اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سَہْو کے طور پر دو سجدے کیے اور اِسی پر اکابِر صحابہ اور تابعین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کا عمل ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،باب سجود السھو ، صفحہ247، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

     سجدہ سَہْو   یا سجدہ تلاوت واجب ہو مگر چھوٹ جائے  تو نماز فاسِد نہیں ہوتی ، مگر واجب چھوٹنے کی بنا پر ناقِص ٹھہرے گی، چنانچہ سجدہ تلاوت چھوٹ جانے کے متعلق  علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) نے لکھا:”لا تفسد صلاتہ لانہ لم یبق علیہ رکن من ارکان الصلاۃ بل تکون ناقصۃ لترک الواجب“ترجمہ:سجدہ تلاوت چھوٹ جانے والے شخص کی نماز فاسِد نہیں ہو گی، کیونکہ اُس پر نماز کے ارکان میں سے کوئی رکن واجب نہیں تھا، البتہ واجب  یعنی سجدہ تلاوت چھوٹنے کی وجہ سے اُس کی نماز ناقِص ضرور  ہو گی۔(ردالمحتار و درمختار،  جلد2، باب سجود السھو، صفحہ673، مطبوعہ کوئٹہ )

     سجدہ سَہْو، سجدہ تلاوت  یا نماز کا فرض سجدہ ذمہ پر باقی ہو اور نمازی بھول کر سلام پھیر دے تو جب تک مسجد میں ہو اور کوئی مُنافیِ نماز کام بھی نہ کیا ہو تو  اُس پر وہ سجدہ کرنا لازم ہے، چنانچہ علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:” ولو نسي السهو أو سجدة صلبية أو تلاوية يلزمه ذلك ما دام في المسجد“ترجمہ:اگر نمازی سجدہ سَہْو، نماز کا فرض سجدہ یا سجدہ تلاوت بھول جائے تو جب تک مسجد میں  ہے (اور کوئی منافی نماز  کام بھی نہ کیا ہو) تو اُس پر وہ سجدہ کرنا لازم ہے۔(ردالمحتار و درمختار،  جلد2، باب سجود السھو، صفحہ674، مطبوعہ کوئٹہ )

     سجدہ سَہْو میں سے ایک سجدہ رہ  جانے کی صورت میں دو الگ سجدے واجب نہیں ہوں گے، چنانچہ فتاویٰ عالَمگیری میں ہے:”السهو في سجود السهو لا يوجب السهو“ترجمہ:سَہْو کے دو سجدوں میں بھول  واقع ہونا، دوبارہ سجدہ سَہْو کو واجب نہیں کرتا۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد1، كتاب الصلاۃ ،الفصل الثانی عشر فی سجود السھو ، صفحہ130،مطبوعہ کوئٹہ )

     مذکورہ بالا  تمام گفتگو اُس صورت کے متعلق تھی کہ نمازی کو  فوراً یاد آجائے کہ سجدہ رہ گیا اور منافی نماز کوئی کام بھی نہیں کیا،  لیکن  اگر دوسری صورت پائی جائے، وہ یوں  کہ نماز پڑھنے والا  مُنافی نماز کام کر بیٹھا اور بعد میں یاد آیا کہ سجدہ سَہْو رہ گیا تھا، تو واجب ادا نہ ہونے کے سبب نماز مکروہِ تحریمی ٹھہرے گی، جس کو دہرانا واجب ہو گا، چنانچہ درمختار میں ہے:”کل صلاۃ ادیت مع کراھۃِ التحریم تجب اعادتھا“ ترجمہ:ہر وہ  نماز جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداکی جائے،اُس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔(درمختار و ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب فی واجباتِ الصلوٰۃ،جلد 2،صفحہ182،مطبوعہ کوئٹہ )

     منافیِ نماز کام سے کیا مراد ہے، اِس بارے میں علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِبدائع الصنائع“ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے  ہیں:”إذا فعل فعلا يمنعه من البناء بأن تكلم أو قهقه أو أحدث عمدا أو خرج من المسجد أو صرف وجهه عن القبلة وهو ذاكر له“ترجمہ:جب نمازی کوئی ایسا کام کر لے جو بناء کرنے سے مانِع ہو، یعنی اپنی نماز کے ناقِص ہونے کو جاننے کے باوجود گفتگو کرے،  قہقہہ لگائے، جان بوجھ کر بے وضو ہو، مسجد سے باہر چلا جائے یا اپنے چہرے کو قبلہ سے پھیر لے۔(تو اِن سب صورتوں میں بِنا نہیں کر سکتا۔)(ردالمحتار و درمختار،  جلد2، باب سجود السھو، صفحہ674، مطبوعہ کوئٹہ )

     اوپر  جزئیہ میں  یہ کہا گیا کہ چہرے کو قبلہ سے پھیر لے تو یہ بھی نماز کے منافی ہے اور ظاہرا سجدہ سہو اب نہیں کرسکے گا ، لیکن استحساناً اِس پر فتویٰ نہیں ہے، یعنی فتویٰ اِس پر ہے کہ اگر مسجد میں ہی موجود رہا، اگرچہ قبلہ سے منہ پھر گیا، اِس کے باوجود  بھی  سجدہ سہو کر سکے گا، چنانچہ  علامہ شامیرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے  ہیں:”مادام فی المسجد ای وان تحول عن القبلۃ استحسانا،لان  المسجد كله في حكم مكان واحد“ترجمہ:جب تک وہ مسجد میں رہے، یعنی اگرچہ اُس کا رُخ قبلہ سے پھر جائے۔  یہ مسئلہ استحسان کی بنیاد پر ہے۔(استحسان کی وجہ یہ ہے کہ )مسجد اپنی تمام جہات سمیت ایک مکان کے حکم میں ہے۔(ردالمحتار و درمختار،  جلد2، باب سجود السھو، صفحہ674، مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم