Salatul Tasbeeh Me Tasbihat Ungliyon Par Ginna Kaisa ?

صلوٰۃ التسبیح میں تسبیحات انگلیوں پر گِننا کیسا ؟

مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Gul- 2427

تاریخ اجراء: 06 رجب المرجب 1443 ھ/ 08 فروری 2220 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان  شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ صلوۃ التسبیح کی نماز میں انگلیوں پر تسبیحات شمارکرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صلوۃ التسبیح ہو یا کوئی بھی دوسری نماز،انگلیوں پرتسبیح شمارکرنا اگر اس طرح ہو کہ ہرشمارکے وقت ایک ایک انگلی بند کرتا جائے یا اس طرح ہو جس طرح عام طورپرپوروں پرانگوٹھا  یا انگلی رکھ کرشمارکیا جاتا ہے ،تو یہ مکروہ تنزیہی ہے ،کیونکہ اس صورت میں ہاتھ اپنی مسنون حالت پر نہیں رہیں گے، لہٰذا اس سےبچنا چاہیے، البتہ اگرشمارکرنا اس طرح ہو کہ ہرمرتبہ ایک ایک انگلی کے پورے پرزور دے کر شمارکرے اور ہاتھ اپنی جگہ پر ہی مسنون حالت میں رہیں، تو اس میں کوئی کراہت  نہیں ہے۔نیز اگرنماز میں زبان سے ہی شمارکرنے لگ جائیں، تو نماز ہی فاسد ہوجائے گی۔

   بدائع الصنائع میں فرمایا:”یکرہ عد الآی والتسبیح فی الصلاۃ عند أبی حنیفۃ۔۔۔لأبی حنیفۃ أن فی العد بالید ترکا لسنۃالید وذلک مکروہ ،ولانہ لیس من اعمال الصلاۃ فالقلیل منہ ان لم یفسد الصلاۃ فلا أقل من أن یوجب الکراھۃ “ ترجمہ:امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک نماز کے اندر ہاتھوں سے آیتیں یا تسبیحات شمارکرنا مکروہ ہے۔۔۔امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ ہاتھوں سے شمارکرنے میں ہاتھوں کی مسنون حالت کا ترک ہوگااور یہ مکروہ ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ شمارکرنا نمازکے کاموں میں سے نہیں ہے ،لہذا یسا عمل اگرقلیل ہو، تو اگرچہ وہ نماز کو فاسد نہیں کرتا، مگرکم سے کم کراہت ضرور پیدا کرتا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1،صفحہ507،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتح القدیر میں پوروں پرزوردے کرگننے کے بارے میں فرمایا:”ثم محل الخلاف فیما عد بالاصابع او بخیط یمسکہ ،اما اذا احصی بقلبہ او غمز باناملہ فلا کراھۃ ترجمہ:(یعنی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور صاحبین کے درمیان) اختلاف اس وقت ہے جبکہ انگلیوں سے شمارکرے یا کوئی  دھاگا نماز کے اندر لے کے رکھے،اگردل سےشمارکیا یا انگلیوں کے پوروں پر زوردے کرشمارکیا، تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ (فتح القدیر،جلد1،صفحہ431،مطبوعہ کوئٹہ)

   مراقی الفلاح میں کراہت اورعدم کراہت کی تفصیل میں فرمایا:”قولہ ”بالید “ قید لکراھۃ عد الآی والتسبیح عند ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ خلافا لھمابان یکون بقبض الأصابع ولا یکرہ الغمز بالانامل فی موضعھا ولا الاحصاء بالقلب اتفاقا کعدد تسبیحہ فی صلاۃ التسبیح،وھی معلومۃ،وباللسان مفسد اتفاقا“ ترجمہ:ہاتھ سے گننے کی قید لگائی،کیونکہ صاحبین کے برخلاف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہاتھوں پرتسبیح گننا مکروہ ہے ،اس طرح کہ گنتے وقت ایک ایک انگلی کو بند کرتا جائے۔البتہ پورے اپنی جگہ پرہی رہیں ،ان پرزوردے کراگرشمارکیا جائے ،اسی طرح اگردل میں  شمارکیا جائے ،تو یہ بالاتفا ق مکروہ نہیں ہے،جیسے صلاۃ التسبیح کی تسبیحات کو شمارکرنا،اور یہ تسبیحات معلوم ہیں۔زبان سے شمارکرنا بالاتفاق نماز کو فاسد کردے گا۔ (مراقی الفلاح متن الطحطاوی، صفحہ360،مطبوعہ کوئٹہ)

   کراہت سے مراد کراہت تنزیہی ہے۔درمختار میں فرمایا:”(و)کرہ تنزیھا (عد الآی والسور والتسبیح بالید فی الصلاۃ مطلقا)أی ولو نفلا“ترجمہ: آیتیں،سورتیں،تسبیحات ، نماز کے اندرہاتھوں سے شمارکرنا مطلقا مکروہ تنزیہی ہے، اگرچہ نماز نفل ہو۔ (درمختارمع ردالمحتار ،جلد2،صفحہ507،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں مکروہات تنزیہیہ کے بیان میں ہے:”نماز میں انگلیوں پر آیتوں اورسورتوں اورتسبیحات کاگننامکروہ ہے،نماز فرض ہو خواہ نفل ،اوردل میں شمار کرنا یا پوروں کو دبانے سے تعدادمحفوظ رکھنااور سب انگلیاں بطورِمسنون اپنی جگہ پرہوں،اس میں کچھ حرج نہیں ،مگر خلاف اولی ہےکہ دل دوسری طرف متوجہ ہوگا،اورزبان سے گننا مفسد نماز ہے۔“(بھارشریعت ،جلد1،حصہ3،صفحہ632،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم