Samjhdar Na Baligh Bache Ki Azan Ka Hukum?

کیا نابالغ سمجھدار بچے کی دی ہوئی اذان صحیح اور معتبر ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: SAR-7676

تاریخ اجراء: 22 جمادی الاولی  1443ھ/27 دسمبر 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ   بعض اوقات ہماری مسجد میں نابالغ  سمجھ دار بچے اذان  دیتے ہیں، کیا اُن کا اذان دینا معتبر وصحیح ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ اگر سمجھ دار ہو، مخارِج  درست ہوں اور  لوگ بھی اُس کی دی ہوئی اذان کو اذان ہی سمجھیں ،تو ایسے نابالغ کا اذان دینا جائز ،  مگر مکروہ تنزیہی ہے، لہذا بہتر، مناسب اور اَولیٰ یہی ہے کہ کوئی بالغ اذان دے، تا کہ لوگ تشویش میں مبتلا نہ ہوں، لیکن نابالغ کےبجائے بالغ کا اذان دینا  بھی  اس صورت میں ہے ،جب  صحیح اذان دینے والا موجود ہو اور اگر ایسا ہو کہ اگر نابالغ اذان نہیں دے گا، تو کوئی دوسرا ایسا شخص اذان دے گا ،جس کے مخارج غلط، الفاظ کی ادائیگی غلط اور اذان ہی غلط ہو، تو ایسے سے سوگنا بہتر ہے کہ نابالغ ہی اذان دیدے۔

      علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’يجوز بلا كراهة ‌أذان صبی مراھق‘‘ترجمہ:قریب البلوغ بچے  کی اذان بلا کراہت جائز ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار ، جلد2، باب الاذان، صفحہ73، مطبوعہ کوئٹہ)

      اِس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:أي تحريمية لأن التنزيهية ثابتة لما في البحر عن الخلاصة أن غيرهم أولى منهم، أقول: وقدمنا أول كتاب الطهارة الكلام في أن خلاف الأولى مكروه۔۔۔المراد به العاقل وإن لم يراهق ‘‘ ترجمہ :بلاکراہت جائز ہونے سے مراد یہ ہے کہ مکروہِ تحریمی نہیں ہے، کیونکہ تنزیہی ہونا تو بہر صورت ثابت ہی ہے۔ بحر الرائق میں خلاصۃ الفتاویٰ سے منقول ہے کہ اُن (نابالغ)کے علاوہ کسی بالغ کا اذان دینا اَولیٰ ہے۔ میں(علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ) یہ کہتا ہوں کہ ”کتاب الطھارۃ “کے شروع میں یہ کلام گزر چکا ہے  کہ خلافِ اَولیٰ مکروہِ تنزیہی ہوتا ہے۔ لفظِ (مراہق) سے سمجھ دار بچہ مراد ہے، اگرچہ وہ  مراہق یعنی قریب البلوغ  نہ ہو۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد2، باب الاذان، صفحہ73، مطبوعہ  کوئٹہ)

         امامِ اہلسنت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ نابالغ اگر عاقل ہے اور اُس کی اذان اذان سمجھی جائے، تو جائز ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد5،صفحہ420،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

         صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’ نابالغ اگر سمجھ والا ہے ،تو بلا کراہت اذان دے سکتا ہے، مگر بالغ اذان کہے تو بہتر ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد1،صفحہ52،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم