Sharai Safar Ke Irade Se Nikla Lekin Aadhe Raste Se Wapas Aagaya

شرعی سفر کے ارادے سے نکلا لیکن آدھے راستے سے واپس آگیا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1991

تاریخ اجراء: 27صفرالمظفر1445ھ /14ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص  شرعی سفریعنی92کلو میٹر کے ارادے سے نکلا،لیکن آدھے راستے میں ہی واپس آنا پڑا تو کیا جو نمازیں اس نے آدھے سفر کے دوران پڑھی،ان کو پھر سے پورا پڑھنا ہوگا یا نہیں؟نیز واپس وطن پہنچنے تک کی نمازوں کے متعلق کیا حکم ہوگا؟اگر اُن نمازوں میں بھی  قصر کیا ہو تو کیا انہیں دوبارہ پڑھنا ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفس مسئلہ کے جواب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے  کہ در اصل مسافت شرعی والے سفر میں نمازوں میں  قصر کا حکم ،اُس سفر کے آغاز سے ہی ہوجاتا ہے،اور چونکہ  مسافر کیلئے شہر کی آبادی سے باہر ہونے کے بعد سے ہی سفر شروع ہوجاتا ہے، لہذا مسافر جیسے ہی اپنے  شہر کی آبادی سے باہر ہوگاتوسفر کی   ابتداء سے ہی اُس کیلئے نمازوں میں قصر   کا حکم ثابت ہوجائے گا۔لیکن  سفر کے مکمل ہونے تک  ، قصر کے حکم کو ثابت رکھنے کیلئے اُس  سفر کا مزید آگے  جاری رہنا بھی   شرط ہے، اگر مسافر نے سفر مکمل ہونے یعنی مسافتِ سفر (بانوے کلومیٹر) سے پہلے ہی  سفر کو ترک کرکے وطن لوٹنے کا ارادہ کرلیا تواب اگر وہ  اس کا وطنِ اصلی  ہے  جہاں وہ لوٹ رہا ہے تو  اس صورت میں صرف ترکِ سفر کے ارادے سے ہی وہ  مقیم ہوجائے گااور  اب شرعاً اُس کیلئے  نمازوں میں قصر کا حکم ختم ہوجائے گا  ،کیونکہ  حکمِ قصر کے جاری رہنے کیلئے سفر کا باقی رہنا ضروری تھا اور جب سفر ختم ہوگیا تو اب قصر کا حکم بھی جاتا رہا،لہذا اب مسافر وطن اصلی  واپس لوٹنے تک بھی نمازیں پوری پڑھے گا۔البتہ اگر وہ اُس کا وطن اصلی نہ ہو تو اب ایسی صورت میں وہ واپسی میں بھی   قصر ہی کرے گا۔

   اب صورت مسئولہ کا جواب  یہ ہے کہ جب کوئی شخص سفر شرعی کے ارادے سے اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہوجائے اور پھر   کسی وجہ سے اُسے آدھے راستے سے واپس ہونا پڑے تو ایسی صورت میں اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہونے کے بعد سے،آگے کی جانب سفر روکنے سے پہلے تک، چونکہ اس کے لیے نمازوں میں قصر ہی کا حکم تھا ،لہذا  اس دوران  اس نے جتنی نمازوں میں قصر کیا وہ سب درست ادا ہوئیں اور اُنہیں دوبارہ پورا پڑھنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ البتہ  جب   مزید سفر کو ترک کرکے اپنے وطن واپس لوٹے گا  تو اگروہ  اس کا وطن اصلی ہے جہاں وہ لوٹ رہا ہے تو اب اس کیلئے نمازوں میں قصر کا حکم  باقی  نہیں رہے گا،بلکہ اب وہ وطن واپسی تک پوری نمازیں ہی پڑھے گا،لہذا اس دوران مسافر نے نمازوں میں قصر کیا ہو تو اُنہیں دوبارہ سے پورا پڑھے کہ جب قصر کا حکم ختم ہوچکا توان نمازوں کو قصر کے ساتھ ادا کرنا درست نہیں  ہوا۔ہاں   اگر وہ اس کا وطن اصلی نہ ہوتو اب ترکِ سفر کے ارادے سے قصر کا حکم ختم نہیں ہوگا اور واپسی پر بھی نمازوں میں قصر ہی کرے گالہذاا س صورت میں ان نمازوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

   بحر الرائق میں ہے’’إذا رجع لحاجة نسيها ثم تذكرها، فإن كان له وطن أصلي يصير مقيما بمجرد العزم على الرجوع، وإن لم يكن له وطن أصلي يقصر‘‘ترجمہ:جب مسافر  کسی حاجت کی وجہ سےوا پس لوٹے، جسے وہ بھول گیا تھا پھر اسے یاد آیا  تو اگر وہ اس کا وطن اصلی ہے تو صرف واپسی کے ارادے سے ہی وہ مقیم ہوجائے گا اور اگر وہ اس کا وطن اصلی نہیں تو واپسی میں بھی قصر ہی کرے گا۔(البحر الرائق، باب صلاۃ المسافر،جلد2، صفحہ142،دار الکتاب الاسلامی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم