Sharai Safar Mein Kitni Dair Theherna Safar Ko Munqata Kar Dega ?

شرعی سفر میں کتنی دیر ٹھہرنا سفر کو منقطع کردے گا؟

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری  

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری   

فتوی نمبر:126

تاریخ اجراء:    26ربیع الثانی 1445 ھ/11نومبر23 20 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ مسافر بننے کے لئے تین دن کے متصل سفر کی قید لگائی جاتی ہے، جیسا کہ بہارشریعت میں ہے:"یہ بھی شرط ہے کہ تین دن کی راہ کے سفر کا متصل ارادہ ہو اگر یوں ارادہ کیا کہ مثلاً  دو دن کی راہ پر پہنچ کر کچھ کام کرنا ہے، وہ کر کے پھر ایک دن کی راہ جاؤں گا، تو یہ تین دن کی راہ کا متصل ارادہ نہ  ہوا،مسافر نہ ہوا۔"

   پوچھنا یہ  ہے کہ سفر کے اتصال میں رکاوٹ بننے والے جس کام کا ذکر کیا جا رہا ہے،اس سے کتنی دیر کاٹھہرنا ،مراد ہے ؟ایک عالم صاحب سے سنا ہے کہ ایک پوری رات مراد ہے یعنی اگر پوری رات ٹھہرنے ،پھر آگے سفر کا ارادہ ہے ،تو یہ سفر کو منقطع کرے گا اور اگر رات ٹھہرنے کا ارادہ  نہ ہو،بلکہ گھنٹہ دو  گھنٹہ یا چاہے چھے گھنٹہ ہی کیوں نہ رکنا ہو،یہ سفر کو منقطع نہیں کرے گا اور بندہ مسافر ہی رہے گا۔کیا یہ بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سفر شرعی کے لئے تین دن کی مسافت یعنی 92 کلو میٹر یا اس سے زائد  متصل سفر کا ارادہ ہو،یہ ضروری ہے۔متصل سفر سے مراد یہ  ہے کہ دوران سفر جہاں رکنا ہو،وہ ضمناً  ہوجیسے نماز پڑھنے،کھانے پینے،آرام کرنے وغیرہ ایسے کاموں کے لئے رکنا ہو، جس  کی عموماً سفر میں ضرورت پڑتی  ہے اوراس  ضمناً رکنے کا  فقہائے کرام نے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں فرمایا کہ اتنا ہو یا اتنا ہو، بلکہ اسے مطلق رکھا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ  رکنے کے اس  وقت کی کوئی حد بندی نہیں ہے،یہ رکنا گھنٹہ دو گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے   اور پورا دن یا پوری رات بھی ہو سکتا ہے اور اس سے سفر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا  ۔فقہاء کے اطلاق کے علاوہ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تین دن کی مسافت کے سفر میں  فقہائے کرام کی تصریح کے مطابق ہر وقت سفر کرنا یعنی چلتے رہنا ضروری نہیں ہے، بلکہ سال کے سب سے چھوٹے دن کے حساب سے دن کا اکثر حصہ سفر ضروری ہے، جس کا واضح مطلب ہے باقی وقت جس میں رات بھی شامل ہے ،اس میں ٹھہرا جا سکتا ہے اور یہ سفر کے منافی نہیں ہے،اسی وجہ سے  قدیم زمانوں میں جب اونٹوں،گھوڑوں وغیرہ پر سفر ہوتا تھا،وہ مسلسل جاری نہیں رہتا تھا،بلکہ جانوروں اور اپنے آرام وغیرہ مختلف ضرورتوں کی بنیاد پر دن کا   معتد بہ اور اکثر حصہ سفر کرنے کے بعد پڑاؤ کیا جاتا تھا ، جس میں  پوری پوری رات پڑاؤ بھی ہوجاتا تھا ۔

   یہ تفصیل ضمناً رکنے کی ہے۔ رکنا اگر بالقصد ہو یعنی یکمشت سفر کا ارادہ نہیں ہے،بلکہ سفر کئی حصوں میں تقسیم ہے کہ پہلے ایک جگہ جانا ہے،وہاں کچھ کام ہے وہ نمٹا کر آگے جانا ہے،تو یہ رکنا چاہے کم وقت کے لئے  ہو مثلاً :صرف  آدھے گھنٹے کا کام ہو،وہ کر کے آگے جانا ہے تو یہ سفر کو منقطع کر دے گا۔اس پر دلیل بھی فقہائے کرام کا اطلاق ہے کہ وہ  اس رکنے کو کسی مخصوص وقت کے ساتھ مقید نہیں کرتے،لہٰذاآدمی مجموعی طور پر اگرچہ مسافت شرعی  یعنی 92 کلو میٹر کے سفر  پر جا رہا ہو ،مگر بیچ میں بالقصد کام کے لئے بھی کسی جگہ  رکنا ہے اور یہ جگہ مسافت شرعی یعنی 92 کلو میٹر سے کم  ہے تو وہ مسافر نہیں ہوگا اور پوری نماز پڑھے گا۔اس کی ایک مثال  مختلف شہروں میں مال سپلائی کرنے کے لئے جانے  والے سیلز مین کے سفر کی ہے کہ عموماً وہ  روزانہ کی بنیاد پر گاڑی پر مال لوڈ کر کے مختلف شہروں میں  مال سپلائی کرنے کے لئے جاتے ہیں اوربسا اوقات ایک ہی دن میں دو دو سو کلو میٹر بھی سفر کر جاتے ہیں،مگر ان کی نیت  یکمشت سفر کی نہیں ہوتی،بلکہ شروع سے ہی مختلف شہروں میں جانے اور مال سپلائی کرنے کی نیت ہوتی ہے،یوں ان کا سفر مقصوداً کئی حصوں میں تقسیم ہوتا ہے اور اکثر باہم ان شہروں کی مسافت92 کلو  میٹر سے کم ہی ہوتی ہے،لہٰذا یہ مسافر شرعی نہیں بنتے۔سوال میں مذکور  بہارشریعت کے جزئیہ میں جس رکنے اور کام  کا ذکر ہے اوریہ کہ وہ سفر کو منقطع کر دے گا،اس سے مراد  یہی بالقصد رکنے والی صورت ہے۔

   الغرض رات بھر رکنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے،جسے  مطلقا  قاطع سفر(سفر کو ختم کرنے والا) قرار دیں،بلکہ اصل مدار رکنے کے ضمنی یا قصدی ہونے پر ہے،رکنا اگر ضمنی ہے تو چاہے رات بھر ہو یا  اس سے زائد ، وہ سفر کو ختم نہیں کرے گا اور رکنا اگر قصدی ہے تو چاہے رات سے کم ہو،سفر کے منافی ہوگا۔ 

   تین دن کے سفر سے مراد ہر وقت  سفر یعنی چلتے رہنا شرط نہیں ہے،بلکہ  دن کا اکثر حصہ مراد ہے،لہٰذا رات بھر کا پڑاؤ  سفر کے منافی نہیں ہے۔ چنانچہ درمختار میں ہے:" ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل"اور ہر دن رات  تک سفر کرنا شرط نہیں ہے۔(درمختار مع ردالمحتار،جلد 02،صفحہ  724،مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتار میں ہے:"قوله:( ولا يشترط إلخ) إذ لا بد للمسافر من النزول للأكل والشرب والصلاة ولأكثر النهار حكم كله"شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول:(اور شرط نہیں ہے۔الخ)کیونکہ مسافر کے لئے کھانے،پینے اور نماز کے لئے اترنا ضروری ہے اوردن کا اکثر حصہ چلنا پورے دن چلنے کے حکم میں ہے۔(ردالمحتار،جلد 02، صفحہ  724،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:" دن سے مراد سال کا سب ميں چھوٹا دن اور تین دن کی راہ سے یہ مراد نہیں کہ صبح سے شام تک چلے کہ کھانے پینے، نماز اور دیگر ضروریات کے ليے ٹھہرنا، تو ضرور ہی ہے، بلکہ مراد دن کا اکثر حصہ ہے ،مثلاً:  شروع صبح صادق سے دوپہر ڈھلنے تک چلا پھر ٹھہر گیا پھر دوسرے اور تيسرے دن يونہی کیا تو اتنی دور تک کی راہ کو مسافت سفرکہیں گے دوپہر کے بعد تک چلنے میں بھی برابر چلنا مراد نہیں، بلکہ عادۃً جتنا آرام لینا چاہے اس قدر اس درمیان میں ٹھہرتا بھی جائے اور چلنے سے مراد معتدل چال ہے کہ نہ تیز ہو نہ سُست، خشکی میں آدمی اور اونٹ کی درمیانی چال کا اعتبار ہے اور پہاڑی راستہ میں اسی حساب سے جو اس کے ليےمناسب ہو اور دریا میں کشتی کی چال اس وقت کی کہ ہوا نہ بالکل رُکی ہو نہ تیز۔(بہار شریعت،جلد 1،صفحہ 740،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   ضمناً رکنا منافی سفر نہیں اور قصداً رُکنا یعنی سفر کا  یکمشت نہ ہونا بلکہ حصوں میں تقسیم ہونامنافی سفر ہے، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰنفرماتے ہیں : " فأما إذا لم يجتمع مدة سفر أو اجتمعت ولم يكن من قصده أول الخروج إلا بلد دون مدة سفر، ثم حدث القصد إلى آخر فالحكم واضح أيضا (وهو عدم القصر) و كذلك إذا خرج ناويا مدة سفر،  وھو المقصودالاصلی وله بعض حاجات في مواضع واقعة في البين، فالحكم ظاهر أيضا وهو القصر، لأن العبرة بأصل المقصود وإنما الاشتباه فيما إذا خرج بمقاصد عديدة كلها مقصود بالذات، وفي أقصاها ما هو على مسيرة سفر، وخرج أولا متوجها إلى ما هو دونها، ثم توجه إلى آخر، ثم إلى الأقصى، فهل يعتبر أن من قصده حين الخروج الذهاب إلى ما هو على مسيرة سفر، وإن لم يكن حين خرج متوجها إليه وقاصدا له في الحال، بل قاصدا غيره؟ أم يلاحظ ما هو مقصوده في الحال فيتم، وظاهر إطلاق "البزازية" و"الفتح" هو الإتمام"جب مسافت سفر نہ بنتی ہو یا بنتی ہو مگر اپنے علاقے سے نکلتے وقت مسافت سفر سے کم پر واقع شہر کا ارادہ ہو بعد میں دوسرے شہر (جو کہ مسافت سفر پر واقع ہو وہاں جانے کا ارادہ بنے، تو ایسی صورت میں بھی حکم واضح ہے یعنی قصر نہ ہونا ایسے ہی اگر مدت سفر کی نیت سے نکلا مگر درمیان میں کچھ کام کرنے  ہیں تب بھی حکم واضح ہے کہ قصر نماز پڑھنی ہے، کیونکہ اعتبار اصل مقصود کا ہے،اشتباہ صرف اس صورت میں ہے کہ متعدد مقاصد جو مقصود بالذات ہیں ان کے ارادے سے گھر سے نکلا اور آخری مقصد مدت سفر پر واقع ہے اور پہلے مدت سفر سے کم پر گیا پھر دوسرے مقصد کی طرف متوجہ ہوا ،تو کیا اس کا اعتبار ہوگا کہ نکلتے وقت اس کا ارادہ اس جگہ کا بھی تھا جو مدت سفر پر واقع ہے، اگرچہ نکلتے وقت وہاں نہیں جارہا تھا اور فی الحال وہاں جانے کا ارادہ نہ تھا، بلکہ دوسری جگہ کا ارادہ تھا یا فی الحال جو مقصود ہے وہاں کا لحاظ کرتے ہوئے پوری نماز کا حکم دیں گے۔ بزازیہ اور فتح القدیر کے اطلاق سے ظاہر پوری نماز پڑھنا ہے۔ (جد الممتار، جلد03،صفحہ 575، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سفر میں رکنا جہاں مقصود ہو، چاہے کتنا ہی کم ہو،قاطع سفر ہوگا ،اور اگر ضمناً ہو تو قاطع سفر نہیں ہوگا،علماء کا اطلاق اس پر دلیل ہے۔چنانچہ سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگراپنے مقام سے ساڑھے ستاون (۲/۱ .۵۷) میل کے فاصلے پر علی الاتصال جاناہوکہ وہیں جانا مقصود ہے بیچ میں جانا مقصودنہیں اوروہاں پندرہ دن کامل ٹھہرنے کا قصد نہ ہو،توقصرکریں گے ورنہ پوری پڑھیں گے ،ہاں یہ جوبھیجا گیا اگراس وقت حالت سفر میں ہے مقیم نہیں توکم وبیش جتنی دوربھی بھیجاجائےگا مسافرہی رہے گاجب تک پندرہ کامل ٹھہرنے کی نیت نہ کرے یا اپنے وطن نہ پہنچے ۔"(فتاوی رضویہ جلد8،صفحہ270، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سید ی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:"جو مقیم ہو اور وہ دس دس پانچ پانچ بیس بیس تیس تیس کو س کے ارادے پر جائے کبھی مسافر نہ ہوگا ہمیشہ پوری نماز پڑھے گا اگر چہ اس طرح دنیا بھر کا گشت کر آئے جب تک ایک نیت سے پورے چھتیس کوس یعنی ساڑھے ستاون میل انگریزی کے ارادے سے نہ چلے یعنی نہ بیچ میں کہیں ٹھہرنے کی نیت ہو اور اگر دوسو میل کے ارادے پر چلا مگر ٹکڑے کرکے یعنی بیس میل جاکر یہ کام کروں گا وہاں سے تیس میل جاؤں گا وہاں سے پچیس میل، وعلی ہذا لقیاس مجموعہ دو سومیل تو وہ مسافر نہ ہوا کہ ایک لخت ارادہ  ۵۷  میل کا نہ ہوا، ہاں جو مسافر ہے مقیم نہیں وہ جہاں ہے وہاں بھی قصر پڑھے گا اور وہاں سے ایک ہی میل یا کم کو جائے خواہ زیادہ کو، وہاں بھی قصر ہی کرے گا جب پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کسی محل اقامت میں نہ کرے۔" (فتاوی رضویہ،جلد08،صفحہ268،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   سید ی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا کہ زید کے وطن سے ایک مقام تیس کوس کے فاصلے پر واقع ہے اور زید نے ایسی راہ سے سفر کیا کہ اس مقام تک چالیس کوس مسافت طے کرنی ہوئی، تو زید پر نماز کا قصر ہے یا نہیں ؟تو اس کےجواب میں لکھتے ہیں:"ہے جبکہ قصداً دو جگہ پر منقسم نہ ہو مثلاً  اس راہ میں بیس کوس پر ایک شہر ہے ، ارادہ یوں کیا کہ پہلے وہاں جاؤں گا وہاں سے فارغ ہوکر دوسرے مقام پر کہ وہاں سے بیس کوس ہے، جاؤں گا یوں چالیس کوس ہو جائیں گے تو قصر نہیں ، مکان سے بیس  ہی کوس کے مقصد کو چلاہے اگر چہ وہاں سے دوسرا قصد دوسری جگہ کا ہونے والا ہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 8، صفحہ254،  مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

   مذکورہ بالا جزئیات سے واضح ہے کہ سفر کے دوران رکنا جب مقصود ہوگا ،وہ علی الاطلاق قاطع سفر ہوگا اور اس میں تھوڑا ،زیادہ رکنے کی تفصیل نہیں ہوگی، کیونکہ وقت کے تھوڑا زیادہ ہونے کے اعتبار سے  اگر کوئی تفصیل ہوتی تو اسے بھی   ضرور بیان کیا جاتا اور فقط" وہیں جانامقصود ہے بیچ میں جانامقصودنہیں " وغیرہ کلمات  نہ بولے جاتے۔

   ضمنی طور پر رکنا چاہے طویل ہو،منافی سفر نہیں،اطلاق وغیرہ دلائل کے علاوہ الحمد للہ اس پر  صریح دلیل بھی مل گئی۔چنانچہ سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:آدمی اگر کسی مقام اقامت سے خاص ایسی جگہ کے قصد پر چلے جو وہاں سے تین منزل ہو ،تو اس کے مسافر ہونے میں کلام نہیں،اگر چہ راہ میں ضمنی طور پر اور مواضع میں بھی وہ ایک رو ز ٹھہرنے کی نیت رکھے۔  (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ 247، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مذکورہ بالا جزئیہ کے خط کشیدہ الفاظ ہمارے مدعا پر صریح دلیل  ہیں  کہ  رکنا اگر ضمناً ہو تو قاطع سفر نہیں ،چاہے یہ رکنا طویل ہو ،رات بھر یا اس سے زائد ہو، کیونکہ اس جزئیہ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ  علیہ نے ضمنی طور پر ایک روز ٹھہرنے  کو منافی سفر شمار نہیں کیا۔

   تنبیہ:مذکورہ بالا تفصیل  سے واضح ہے کہ تحقق سفر اور آدمی کے مسافر بننے کے اعتبار سے رات گزارنا کوئی ایسی چیز نہیں  ہے جو  مطلقا ًسفر کو منقطع کرے،اصل مدار رکنے کے قصدی یا ضمنی ہونے پر ہے،ہاں  اگر سفر متحقق ہو چکا ہو اور بندہ پر سفر کے احکام جاری ہو چکے ہوں  اور اب وہ کسی جگہ مقیم ہونا چاہتا ہو ، تو ضروری ہے کہ کسی ایک مقام (شہریا بستی وغیرہ)میں پوری پندرہ راتیں مسلسل گزارنے کی نیت کرے،دن میں چاہے کام کاج کے لئے  کہیں جانا بھی ہو تو کوئی حرج نہیں،اس طرح آدمی مقیم کہلائے گا اور پوری نماز پڑھے گا اور اگر مسلسل پندرہ  راتیں ایک مقام میں نہ   گزارنی ہوں ،بلکہ ایک  رات کسی دوسرے  شہر یا بستی  وغیرہ میں بھی   گزارنی ہو تو یہ دوسرا مقام چاہے پہلے مقام سے قریب ہی کیوں نہ ہو ، آدمی مقیم نہیں ہوگا جیسے ایک آدمی کراچی سے حیدر آباد گیا اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ چودہ راتیں حیدر آباد اور ایک رات کوٹری میں رہوں گا، تو کوٹری  اگرچہ حیدر آباد سے بہت تھوڑے فاصلے پر واقع ہے،مگر اقامت کی شرط کسی ایک مقام میں مسلسل پوری پندرہ راتیں گزارنا نہ پایا گیا،لہٰذا وہ مقیم نہیں ہوگا۔

   یہ مسئلہ ایسا ہے،جس میں رات  کا مطلقاً عمل دخل ہے ۔جن عالم صاحب کا سوال میں ذکر ہوا،ہو سکتا ہے انہوں نے اس  دوسرے مسئلہ میں رات کے معتبر ہونے والی بات کو پہلے مسئلہ کے لئے بھی   معتبر سمجھ لیا ہو،حالانکہ یہ درست نہیں ہے اور اب فتویٰ میں رات  کہاں معتبر ہے اور کہاں معتبر نہیں ہے،اس کو  مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے،لہٰذااسی کے مطابق عمل کیا جائے۔

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:"و لو نوی الاقامۃ  خمسۃ عشر یوماً بقریتین ، النھار فی احداھما و اللیل فی الاخری یصیر مقیماً  اذا دخل التی نوی البیتوتۃ فیھا ھکذا فی محیط السرخسی"اگر دو بستیوں میں پندرہ دن اقامت کی نیت کی، ان دونوں میں ایک میں دن گزارنے اور دوسری میں رات بسر کرنے کی نیت تھی، تواس بستی میں داخل ہونے سے مقیم ہو جائے گا جس میں رات گزارنے کی نیت کی تھی۔ ایسا ہی محیط سرخسی میں ہے۔ (عالمگیری،جلد1،صفحہ154،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بروت)

   بحرالرائق میں ہے : " لو نوی الاقامۃ بمکۃ خمسۃ عشر یوماً فانہ لا یتم الصلاۃ لان الاقامۃ لا تکون فی مکانین اذ لو جازت فی مکانین لجازت فی اماکن فیؤدی الی ان السفر لا یتحقق لان اقامۃ المسافر فی المراحل لو جمعت کانت خمسۃ عشر یوماً  او اکثر الا اذا نوی ان یقیم بالیل فی احدھما فیصیر مقیماً بدخولہ فیہ لان اقامۃ المرء تضاف الی مبیتہ  یقال فلان یسکن فی حارۃ  کذا و ان کان بالنھار فی الاسواق  ثم بالخروج الی الموضع الآخر لا یصیر مسافراً " اگر مکہ میں پندرہ روز اقامت کی نیت کی، تو وہ پوری نماز نہیں پڑھے گا، اس لئے کہ اقامت دو جگہوں میں نہیں ہوتی، کیونکہ اگر اقامت دو جگہوں پر جائز ہو گی، تو متعدد جگہوں پر بھی جائز ہو جائے گی، پھر یہ بات اس طرف لے جائے گی کہ سفر ہی متحقق نہ ہو ، اس لئے کہ  سفر کے مراحل میں مسافر کی اقامت ہوتی ہے اگر ان کو جمع کر لیا جائے ،تو یہ پندرہ یا اس سے زیادہ دن بن جاتے ہیں۔ ہاں جب وہ دونوں جگہوں میں سے ایک میں رات میں قیام کی نیت کرے، تو وہ اس جگہ میں داخل ہونے سے مقیم ہو جائے گا،اس لئے کہ آدمی کی اقامت کی نسبت اس کے رات بسر کرنے کی جگہ کی طرف ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں اس محلے میں رہتا ہے اگرچہ وہ دن میں بازاروں میں ہوتا ہے پھر دوسری جگہ کی طرف نکلنے سے وہ مسافر نہیں ہو گا۔ (بحرالرائق،جلد2،صفحہ232،مطبوعہ کوئٹہ)

   مقیم ہونے کے لئے پندرہ راتیں مسلسل ایک جگہ پر گزارنے کی نیت ضروری ہے اگرچہ دن کسی دوسری جگہ پر گزارے۔چنانچہ  سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:" اقول: الحق ان التوالی شرط فانہ لو نوی ان یقیم ھاھنا اسبوعاً فی اول کل شھر لا یکون مقیماً ھاھنا ابداً و الخروج قسمان: احدھما: الخروج نھاراً او لیلاً الی موضع آخر مع المبیت ھاھنا، فھذا لا یقطع التوالی و الآخر : الخروج الی موضع آخر للمبیت فیہ و لو لیلۃ، فھذا الذی یقطع التوالی ۔ ملتقطاً" میں کہتا ہوں: حق یہ ہے کہ تسلسل شرط ہے۔ اگر نیت کرے کہ ہر مہینے کی ابتدا میں ایک ہفتہ یہاں مقیم رہے گا۔ وہ کبھی بھی یہاں مقیم نہیں ہو گا۔ خروج(نکلنے) کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم: دن یا رات میں دوسری جگہ کی طرف اس نیت کے ساتھ نکلناکہ رات یہیں گزارے گا، تو یہ تسلسل کو منقطع نہیں کرے گا۔ دوسری قسم: دوسری جگہ کی طرف نکلنا اس میں رات گزارنے کے لئے اگرچہ ایک ہی رات ہو ،یہ تسلسل کو منقطع کردے گا۔(جدالممتار،جلد3،صفحہ566۔567،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ:کراچی)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:" جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت الٰہ آبادمیں کر لی ہے، تو اب الٰہ آبادوطنِ اقامت ہو گیا۔ نماز پوری پڑھی جائے گی جب تک وہاں سے تین منزل کے ارادہ پر نہ جاؤ اگرچہ ہر ہفتہ پر، بلکہ ہر روز الٰہ آبادسے کہیں تھوڑی تھوڑی دور  یعنی چھتیس کوس سے کم باہر جانا اور دن کے دن واپس آنا ہو، جبکہ نیت کرتے وقت اس پندرہ دن میں کسی رات دوسری جگہ شب باشی کا ارادہ نہ ہو ورنہ وہ نیت پورے پندرہ دن کی نہ ہوگی مثلاً  الٰہ آبادمیں پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کی اور ساتھ ہی یہ معلوم تھا کہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہو گا، تو یہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفر ہی رہا اگرچہ دوسری جگہ الٰہ آبادکے ضلع  میں بلکہ اس سے تین چار ہی کوس کے فاصلہ پر ہو اور اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگرچہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا ، تو اقامت صحیح ہو گئی نماز پوری پڑھی جائے گی،جبکہ وہ دوسری جگہ الٰہ آبادسے چھتیس کوس یعنی ستاون اٹھاون میل کے فاصلے پر نہ ہو ۔ملخصاً"(فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ251،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم