Suraj Grahan Ki Namaz Ke Ahkam

سورج   گرہن کی نماز کے احکام

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی      

فتوی نمبر: Nor-10439 

تاریخ اجراء:       27  ربیع الثانی    1441  ھ/25دسمبر  2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ پاکستان میں  سورج گرہن لگے گا ۔

   اس  کے متعلق میرے چند سوالات ہیں ۔

   پہلا سوال:کیا سورج  گرہن کی نماز اداکرناضروری ہے ؟

   دوسرا سوال :یہ نماز جماعت کےساتھ ادا کی جائے یا اکیلے بھی پڑھ سکتےہیں ؟

   تیسرا سوال :اس نماز کی جماعت کون کرواسکتاہے ؟

   چوتھا سوال :یہ  نما زکس وقت پڑھی جائے؟

   پانچواں سوال  :سورج گرہن کی نماز اد اکرنے کا طریقہ کارکیاہے ؟

   چھٹا سوال :امام  دعا کس انداز میں کروائے گا؟

   ساتواںسوال  :کیاعورتیں بھی یہ نماز ادا کریں گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پہلا سوال :کیاسورج  گرہن کی نماز اداکرناضروری ہے ؟

   جواب :سورج کا گرہن ایسے وقت میں ہے کہ مکروہ وقت نہیں تو سورج گرہن کی نماز ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ تمام ہی شہروں کے جو اوقات درج ہیں 26 دسمبر 2019 کو سورج گرہن کے شروع ہونے کا جو ٹائم ہے اس وقت مکروہ وقت ختم ہو چکا ہوگا اور زوال کے وقت سے پہلے گہن ختم ہو جائے گا تو یوں یہ پورا وہ وقت ہے کہ جس میں نفل نماز قضا نماز وغیرہ پڑھی جا سکتی ہے ۔

   بخاری شریف کی حد یث پا ک ہےکہ:” عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَة قَالَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ كَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا اللہ ترجمہ :حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہزادے) حضرت ابراھیم رضی اللہ عنہ  کی وفات کے دن آفتاب میں گرہن لگا تولوگوں نے کہا کہ ابراھیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سےسورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کسی ایک کی موت اور حیات کی وجہ سے سورج و چاند کو گرہن نہیں لگتا،تو جب تم گرہن کو دیکھو تونماز پڑھواوردعا کرو۔(بخاری شریف ،ج01،ص142،مطبوعہ کراچی   )

   محیط البرہانی اور فتاویٰ تاتارخانیہ  میں ہے:”وصفتھا انھا لیس بواجبۃ ،لانھا لیست من شعائر الاسلام ،فانھا توجد بعارض ، ولکنھا  سنۃ ،لانہ واظب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ذلک “سورج کی گرہن کی نماز  واجب نہیں کیونکہ یہ شعائر الاسلام سے نہیں  بلکہ ایک عارضہ کی وجہ سےپڑھی جاتی ہے لیکن یہ سنت موکدہ ہے کیونکہ سرکار علیہ السلام نے اس کی ادائیگی پر مواظبت اختیار فرمائی ہے۔(فتاویٰ تاتارخانیہ ،ج02، ص656، مطبوعہ ہند  )

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت  میں فرماتےہیں :”سورج گہن کی نماز سنت مؤکدہ ہے ،اور چاند گہن کی نماز مستحب ہے۔“(بہار شریعت ،ج01،ص787،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

   دوسرا سوال : یہ نماز جماعت کےساتھ ادا کی جائے یا اکیلے بھی پڑھ سکتےہیں ؟

   جواب :سورج  گرہن کی نماز  جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے ،اوراکیلے بھی یہ نماز پڑھ سکتےہیں ۔اورجماعت قائم ہو تو صرف دو  رکعتیں ادا کریں  گے اوراکیلے پڑھیں تو دو سے زیادہ بھی اد اکرسکتےہیں ۔

   ملتقی الابحر  میں ہے :”یصلی امام  الجمعۃبالناس عند کسوف الشمس رکعتین،فی کل رکعۃ رکوع واحدویطیل القراءۃ ویخففھا ۔۔۔ثم  یدعو بعدھما حتیٰ تنجلی ا لشمس ولا یخطب وان لم یحضر صلو فرادیٰ رکعتین ،او اربعا “یعنی  امام جمعہ لوگوں کو سورج گرہن کے وقت دو رکعتیں نماز پڑھائے گا،اور ان رکعتوں میں طویل قرأت کرے ،یاتھوڑی  ،اور پھر ان دو رکعتوں کےبعد دعا کرے ،حتی کہ سورج کھل  جائے ،اور خطبہ نہ دے ۔ اگر لوگ  جماعت کے لیے حاضر نہ ہوں ،تو اکیلے اکیلے دو رکعتیں یا چار  رکعتیں ادا کریں ۔(ملتقی الابحر    ،ج01،ص206،مطبوعہ کوئٹہ )

   تیسرا سوال :اس نماز کی جماعت کون کرواسکتاہے ؟

   جواب :اگر یہ نماز جماعت کےساتھ ادا کی جائے تو خطبے کے علاوہ جمعہ کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے لہٰذا اس کی جماعت وہی شخص کرواسکتا ہے جو جمعہ کی جماعت کرواسکتا ہو،اس جماعت  کےلیے نہ تو اذان واقامت ہو گی اور نہ  ہی خطبہ ہوگا ۔البتہ نمازیوں کو جمع کرنے کے لیےاعلان کرنا جائز ہے ۔

   درمختار  میں ہے:”یصلی بالناس من یملک اقامۃ الجمعۃ بیان للمستحب۔۔۔۔عند الکسوف رکعتین بیان لاقلھا وان شاء اربعا او اکثرکل رکعتین بتسلیمۃاوکل اربع،مجتبی “

   رد المحتارمیں (وان شاء اربعا او اکثر) کےتحت ہےکہ :”ھذا غیر ظاھر الروایہ وظاھرالروایہ ھو الرکعتان ثم الدعا الی ان تنجلی قلت :نعم فی المعراج وغیرہ لولم یقمھا الامام صلی الناس فرادی  رکعتین ،اواربعا وذلک افضل “یعنی  امام کا دورکعتیں یا اس سےزیادہ پڑھانا غیرظاہر  الراویہ ہے ،ظاہر الروایہ یہ ہےکہ  امام صرف دو رکعتیں ہی پڑھائے گا پھر سورج گرہن ختم ہونے تک دعاکریں ۔میں کہتاہوں ،ہاں معراج اور اس کےعلاوہ  میں ہےکہ ،اگر جماعت قائم نا ہو  تو وہ تنہادو پڑھیں یا چار ۔(درمختار مع رد المحتار ،ج03، ص78، 77،مطبوعہ کوئٹہ )

   ملتقی الابحر  میں ہے :”یصلی امام  الجمعۃبالناس “یعنی  امام جمعہ لوگوں کو سورج گرہن کے وقت دو رکعتیں نماز پڑھائے گا ۔(ملتقی الابحر،ج01،ص206،مطبوعہ کوئٹہ )

   نمازیوں کو جمع کرنےکےلیےنداء کرنےکے متعلق درمختار میں ہے:”وینادی الصلاۃ جامعۃ لیجتمعوا“ یعنی وہ نداء کرے ، الصلاۃ جامعۃ  تاکہ لوگ  جمع  ہوجائیں ۔ (درمختار ،ج03،ص79،مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے :”سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مستحب ہے اور تنہا بھی پڑھ سکتےہیں ،جماعت سے پڑھی جائےتو خطبہ کے سوائے تمام شرائط جمعہ اس کے لیے شرط ہیں، وہی شخص اس کی جماعت کرواسکتا ہےجو جمعہ کی  کرسکتاہے ،وہ نہ ہوتو تنہا تنہا پڑھیں،گھر میں یا مسجد میں۔ “(بہار شریعت ،ج01،ص،787،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

   چوتھا سوال :یہ  نما زکس وقت پڑھی جائے؟

   جواب :سورج گرہن کی نماز اس وقت ادا کی جائے ، جب سورج کو گرہن لگا ہو اورگہن چھوٹنا شروع ہوگیا مگر ابھی باقی ہے اس وقت بھی شروع کرسکتےہیںہاں اگر مکروہ وقت میں سورج کو گرہن لگا تو نماز ادا نہیں کریں گے دعا وغیرہ میں مشغول ہوں گے ۔

درمختار کی عبارت(عند الکسوف)کےتحت ردالمحتارمیں ہےکہ: ”فلو انجلت لم تصل بعدہ واذا انجلی بعضھا جاز ابتداء الصلاۃ “ یعنی سورج گرہن ختم ہوگیاتو اس کے بعد نماز نہ پڑھے اور اگر تھوڑا گرہن ختم ہوا،کچھ باقی ہے تو نماز شروع کرنا جائز ہے ۔

   بہار شریعت میں ہے:”گہن کی نما زاس وقت پڑھیں جب آفتاب گہنا ہو،گہن چھوٹنےکےبعد نہیں،اورگہن چھوٹنا شروع ہوگیا مگر ابھی باقی ہے اس وقت بھی شروع کرسکتےہیں اور گہن کی حالت میں اس پر ابر (بادل )آجائےجب بھی نمازپڑھیں ۔۔۔ایسے وقت گہن لگاکہ اس وقت نماز ممنوع ہے تونماز نہ پڑھیں بلکہ دعامیں مشغول رہیں ۔اوراسی حالت میں ڈوب جائےتو دعا ختم کردیں اور مغرب کی نماز پڑھیں“(بہار شریعت ، ج1، ص787، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   پانچواں سوال :سورج گرہن کی نماز اد اکرنے کا طریقہ کارکیاہے ؟

   جواب :جب سورج کو گرہن لگاہوتوغیر مکروہ وقت میں  عام نوافل کی طرح کم از کم دو رکعت نمازاداکرنا سنت مؤکدہ ہے۔نماز کے بعد سورج کے کھلنے تک جتنی دیر توفیق ہو دعاکی جائے ۔البتہ مسنون یہ ہے کہ سورج گرہن کا جتنا وقت ہے وہ تمام نماز و دعا میں مشغول ہو ۔نماز جماعت سے پڑھی جائے یا تنہا قراءت آہستہ آواز میں ہوگی ،اگر یاد ہو تو سورہ بقرہ اور آل عمران جیسی بڑی سورت پڑھی جائے رکوع اور سجود میں بھی طویل کیے جائیں نماز کے بعد دعا کی جائے،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نمازمیں  قراءت طویل نا کی جائے نماز سے فارغ ہو کر طویل دعا کی جائےخلاصہ یہ کہ قراءت و دعا میں سے ایک طویل ہو تو دوسرا عمل خفیف ہونا چاہیے۔

   درمختار  میں ہے:” وصفتھاکالنفل ای برکوع واحد فی غیر وقت مکروہ ،بلااذان ولا اقامۃ ولا جھر  ولا خطبۃ “ سورج گرہن کی نماز غیر مکروہ وقت میں ہوگی  عام نوافل کی طرح یعنی ایک رکوع کےساتھ ،بغیر اذان واقامت اور بغیر خطبے اور بغیر جہر یعنی بغیر بلند آواز کے قرأت ہوگی۔(درمختار مع رد المحتار ،ج03،ص78،مطبوعہ کوئٹہ )

   فتاوی ٰ عالمگیری میں نمازکسوف  میں قراءت کے متعلق ہے :”ویجوز ان یطول القراءۃ فیھما ۔۔ ۔ ویجوز تطویل القرأۃ وتخفیف الدعا وتطویل الدعا وتخفیف القرأۃفاذا خفف احدھما طول الآخر “یعنی ان دونوں رکعتوں میں  طویل قراءت کرنا افضل ہے۔۔۔اور قراءت کو لمبا کرنااور دعامیں تخفیف کرنا یا  لمبی دعاکرنا اور قراءت میں تخفیف کرنا دونوں جائز ہے ،کہ جب ایک کو لمبا کرےگا تو دوسرے میں تخفیف کرےگا ۔(فتاوی ٰ عالمگیر ی،ج01،ص153،مطبوعہ  پشاور )

   ملتقی کی عبارت (ویطیل القرأۃ )کے تحت مجمع الانھر میں ہے :”یعنی الافضل ان یطیل القرأۃفیقرأفی کل رکعۃ مقدار مائۃآیۃ ویمکث فی  رکوعہ کذلک فاذا خفت القرأۃ طول الدعا لان المسنون استعیاب الوقت “یعنی افضل یہ کہ وہ  لمبی قرأت کرے ،ہر رکعت میں سو آیتوں کی مقدار قراءت کرےاور رکوع میں اتنی ہی دیر ٹھہرے،اور جب وہ تھوڑی قراءت کرےتو دعا  لمبی کرے ،کیونکہ سورج  گرہن کے تمام وقت کو نماز اور دعا سے گھیرنا افضل ہے۔ (شرح مجمع الانھر  ،ج01،ص206،مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے:”یہ نماز اور نوافل کی طرح ہے دو رکعت پڑھیں ،یعنی ہر رکعت میں ایک رکوع اوردو سجدے  کریں ،نہ اس  میں اذان ہے نہ اقامت نہ بلندآوازسے قرأت اور نما زکے بعد دعاکریں یہاں تک کہ آفتاب کھل جائے اور(تنہاء پڑھیں تو) دو رکعت سے زیادہ بھی پڑھ سکتے ہیں خواہ دورکعت پر سلام پھیریں یا چار پر“(بہار شریعت ، ج1، ص787، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   چھٹا سوال:امام  دعا کس انداز میں کروائے گا

   جواب :دعا کا طریقہ یہ ہے کہ امام چاہے توبیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعا کرے چاہے تو  قبلہ رخ ہو کر دعا کرے یا مقتدیوں کی طرف منہ کر کے ۔اگر امام کے پاس عصا ہو تو اس کے سہارے کھڑا ہونا بہتر ہے۔البتہ دعا کے لئے منبر پر نہ چڑھے۔

   ملتقی الابحر میں ہےکہ ”ثم یدعو الامام جالسا اوقائما مستقبل القبلۃ او مستقبل القوم بوجہ ولوقام متعمدا علی عصا او قوس لکان حسنا“ یعنی پھرامام بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر قبلے کی طرف یا نمازیوں کی طرف منہ کرکے دعامانگےاور اگر امام عصا یا کمان پر ٹیک لگا کر کھڑاہوتو اچھا ہے ۔(ملتقی الابحر ،ج01،ص206،مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے :” امام قبلہ رودعاکرےیا مقتدیوں کی طرف مونھ کرکے کھڑاہواوربہتریہ ہےکہ سب مقتدی آمین  کہیں ،اگر دعا کےوقت عصا یا کمان پر ٹیک لگاکر کھڑاہوتویہ بھی اچھاہے ،دعاکےلیے منبر پرنہ جائے۔ (بہار شریعت ،ج01،ص788 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

   ساتواں سوال :کیاعورتیں بھی یہ نماز ادا کریں گی؟

   جواب :جی ہاں:عورتیں گھر پر اکیلے ہی  یہ نماز ادا کریں گی ، نماز کے بعد دعا میں مشغول رہیں گی۔

   عورتوں کےلیے حکم بیان کرتےہوئےفرمایا”والنساءیصلینھا فرادیٰ کما فی الاحکام البرجندی “یعنی اور عورتیں تنہا تنہا نماز پڑھیں ، جیساکہ احکام برجندی میں ہے۔ (درمختار ،ج03،ص79،مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم