Takbeer e Tahreema Ke Liye Hath Uthaye Bagair Namaz Shuru Kardi To Kya Hukum Hai ?

تکبیرِتحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھائے بغیر نماز شروع کر دی ،تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mul-765

تاریخ اجراء:19محرم  الحرام1445ھ/07اگست2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ اگر تکبیر تحریمہ کےلیے بھولے سے ہاتھ نہ اٹھائے،فقط زبان سے "اللہ اکبر"کہہ لیا تو کیا حکم ہے؟ سجدہ سہو لازم  ہو گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانینِ شریعت کے مطابق سجدہ سہو ، بھولے سے نماز کا کوئی واجب چھوٹنے سے  واجب ہوتا ہے ، سنن ومستحبات کے ترک سے  واجب نہیں ہوتا اورتکبیرِ تحریمہ کےلیے دونوں ہاتھ اٹھانا سنت  مؤکدہ ہے ، واجب نہیں ،لہذا سہوا (یعنی بھولنے کی وجہ سے )اس کے  ترک سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگااور گناہ بھی نہیں ہوگا ،البتہ  سنتِ مؤکدہ کے حکم کے مطابق   جان بوجھ کر ایک آدھ بار تکبیرِ تحریمہ کےلیے ہاتھ نہ اٹھانا  اگرچہ گناہ نہیں،  مگرقابلِ ملامت ضرور  ہےاور بلاعذراس کی عادت بنالیناگناہ  ہے۔

   غنیۃ المتملی میں ہے:’’لایجب الا بترک الواجب من واجبات الصلاۃ فلایجب بترک السنن و المستحبات ۔ ملتقطا‘‘سجدہ سہو ، نماز کے واجبات میں سے(بھولے سے) کسی واجب کے ترک پر لازم ہوتا ہے ،لہٰذا سنن و مستحبات کے ترک پر سجدہ سہو لازم نہیں۔(غنیۃ المتملی ، صفحہ 393، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’واجباتِ نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے، تو اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو واجب ہے۔‘‘     (بھار شریعت،ج01،ص708،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   اسی میں ہے:’’ سنن و مستحبات کے ترک سے سجدۂ سہو نہیں، بلکہ نماز ہو گئی۔ملخصا‘‘(بھار شریعت،ج01،ص709،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   تکبیرِ تحریمہ کےلیے ہاتھ اٹھانے کے متعلق تنویر الابصار ودر مختار میں سننِ نماز کےبیان میں فرمایا:’’(رفع اليدين للتحريمة) في الخلاصة: إن اعتاد تركه أثم ،ملخصا‘‘ تکبیرِ تحریمہ کےلیے دونوں ہاتھ اٹھانا (سنت ہے)،خلاصہ میں  ہے،اگر ترک کی عادت بنا لی تو گنہگار ہوگا ۔(تنویر الابصار ودرمختارمع ردالمحتار،ج2،ص208،مطبوعہ  کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے :’’قولہ:(في الخلاصة إلخ) حكى في الخلاصة أولا خلافا، قيل يأثم، وقيل لا. ثم قال: والمختار إن اعتاده أثم لا إن كان أحيانا. اهـ. وجزم به في الفيض وكذا في المنية اهـ ‘‘ شارح علیہ الرحمۃ کا قول (خلاصہ میں ہے۔۔الخ)خلاصہ میں پہلے اختلاف ذکر کیا کہ ایک قول کے مطابق گنہگار ہوگا اور ایک قول کے مطابق نہیں ،پھر فرمایا مختار یہ ہے کہ اگر ترک کی عادت بنا لی تو گنہگار ہوگا اور کبھی کبھار ترک کیا تو نہیں ۔اھ۔اسی پر فیض میں جزم کیا اورایسا ہی منیہ میں ہے۔ (رد المحتار ، ج2 ص208،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:’’ہاں جو سنت مؤکدہ ہو اور کوئی شخص بلاضرورت بے عذر براہ تہاون وبے پروائی اس کے ترک کی عادت کرے اُسے ایک قسم اثم لاحق ہوگی‘‘ فی شرح المنیۃ للعلامۃ ابراھیم الحلبی لایترک رفع الیدین  عند التکبیر لانہ سنۃ موکدۃ ولواعتاد  ترکہ یاثم ،اما لو ترکہ بعض الاحیان  من غیر اعتیاد  فلا یاثم  وھذا مطرد  فی جمیع  السنن المؤکدۃ‘‘علامہ ابراہیم حلبی کی شرح منیہ  میں ہے کہ تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانا ترک نہ کیا جائے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے اور اگر ترک کی عادت بنا لی تو گنہگار ہوگا ،ہا ں بغیر عادت کے کسی وقت ترک کیا ،تو گنہگار نہ ہوگا اور  یہی اصول تمام سنن مؤکدہ میں جاری ہوتا ہے۔ملخصا۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج8، ص562،مطبوعہ رضا فاونڈیشن ،لاھور)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن  ایک اور مقام پرارشاد فرماتے ہیں :’’سنت مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو ،عتاب ہی کااستحقاق ہو،مگربارہا ترک سے بلاشبہ گنہگار ہوتا ہے ۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج1، ص596،مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم