Takbeer e Tehreema Qirat Aur Talbiyah Ghair Arabi Mein Parhna

تکبیر تحریمہ ،قراءت اور تلبیہ غیرِ عربی میں پڑھنا

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری        

فتوی نمبر: FSD-8007

تاریخ اجراء:       04 صفر المظفر1444ھ/01 ستمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین درج ذیل تین مسائل کے بارے میں:

   (1) اگر کوئی شخص تکبیرِ تحریمہ اور قراءت سے عاجِز ہو، تو کیا عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تکبیرِ تحریمہ یا قراءت کرنے سے نماز درست ہو جائے گی؟

   (2) کیا قراءت اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ   دیگر اذکار ِ نماز کو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھ سکتے ہیں، خواہ عجز ہو یا نہ ہو ؟

   (3)کیا ”تلبیہ“ کو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھا جا سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)ایسا عاجز شخص کہ جو  عربی  نظمِ قرآنی پڑھنے  پر قادر  نہیں،اگر وہ کسی دوسری زبان  میں تکبیر تحریمہ  کہے یا قراءت کرے،تو اُس کی نماز بلاکراہت درست ہوجائے گی۔ تکبیرِ تحریمہ درست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک غیرِ عاجز شخص عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبا ن میں الفاظِ تعظیم کہے، تو اُس کی نماز شروع ہو جاتی ہے، اگرچہ وہ گنہگار ہوتا ہے، تو جو شخص عاجِز ہے، اُس کے حق میں بدرجہ اَولیٰ نماز کا آغاز ہو جائے گا، نیز جب اُس نے عذر کے سبب ایسا کیا، تو کراہتِ تحریمی کا بھی مرتکب نہ ٹھہرے گا۔

   جہاں تک کسی دوسری زبان میں قراءت کرنے کا مسئلہ ہے، تو یاد رکھیے کہ اگر غیر عاجز شخص عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں قراءت کرتا ہے، تو اُس کی زبان سے نکلے الفاظ پر ”قراءت“ کا اِطلاق نہیں ہو گا،کیونکہ قرآنِ مجید عربی زبان میں نازل ہوا اور نماز میں اُسی عربی نظمِ قرآنی کی قراءت کا حکم ہے،بدلیل ﴿فَاقْرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ﴾لہذا جو غیر عربی نظم ہے،  وہ ”قرآن“ نہیں، بوجہ دلیلِ﴿ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ ﴾لہذا جب وہ قرآن نہیں ،تو اُسے ”قراءت“ بھی نہیں شمار کیا جا سکتا،الغرض غیرِ عاجز شخص کے عربی کے ماسِوا کسی دوسری زبان میں ”قراءت“ کرنے سے اُس کی نماز نہیں ہوگی۔ البتہ  عاجز شخص کے معاملے میں ہمارے دینِ اسلام نے رخصت مہیا کی ہے کہ ایسا شخص جو نظم عربی کی ادائیگی پر قادر نہیں، تو اُس کے لیے غیر عربی میں قراءت کے باوجود نماز درست ہو جائے گی،  لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ نماز درست ہونے کی یہ وجہ نہیں کہ اُس کا عربی کے علاوہ دوسری زبان میں پڑھنا حقیقت میں ”قراءت “ شمار ہوتاہے، ایسا نہیں ہے ،  بلکہ وجہ یہ ہے  اُمِّی“ یعنی اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے  اُس پر قراءت فرض  ہی نہیں،  بلکہ وہ  قراءت کی جگہ جو بھی ذکر کرلے،  وہی اس کے لیے کافی ہے۔

   اہم نوٹ: مکلف مسلمان پر ایک آیت یادکرنا فرض ہے، نیز ”سورۃ الفاتحۃ“اور ایک چھوٹی سورت یا تین چھوٹی آیتیں یاد کرنا واجب ہے،لہٰذا ایسے شخص کو چاہیے کہ دن رات محنت کر کے قرآن مجید کو یاد کرے  اور یہ کوئی مشکل کام  نہیں، توجہ ہوتو کچھ دیر  میں”ماتجوز بہ الصلوۃ“ یعنی اتناقرآن کہ جس سے نماز درست ہوجائے،  یاد کیا جا سکتا ہے۔

   (2)جو شخص عربی میں اذکارِ نماز پڑھنے پر قدرت رکھتا  ہو، اُسے غیر عر بی میں پڑھنا  مکروہ تحریمی اور گناہ ہے اور اگر کوئی عاجز ہو،تو وہ پڑھ سکتا ہے۔ اُس کے لیے حکمِ کراہت نہیں۔

   (3)عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تلبیہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اِس میں کوئی حرج نہیں، البتہ عربی میں تلبیہ پڑھنا افضل ہے۔

   غیرِ عربی میں تکبیرِ تحریمہ :

   تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:’’صح شروعه مع كراهة التحريم  بتسبيح وتهليل وتحميد وسائر كلم التعظيم الخالصة له تعالى كما صح ‌لو ‌شرع ‌بغير ‌عربية أي لسان كان۔۔۔ وشرطاعجزه ‘‘ ترجمہ:نماز کو تسبیح ،تہلیل،تحمید اور ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص کلمات ِتعظیم سےشروع کرنا درست، مگر مکروہ تحریمی ہے، جیسا کہ عربی زبان کے علاوہ کسی بھی زبان میں نماز شروع کی جائے، تو غیرِ عاجز کے لیے(کراہتِ تحریمی کے ساتھ اور عاجز کے لیے بلاکراہت)درست ہے، جبکہ صاحبین نے صحتِ شروع کے لیے عربی نظم سے عجز کی شرط لگائی ہے۔(کہ عاجز ہوا، تو نماز شروع ہو گی، ورنہ شروع ہی نہ ہو گی۔ یعنی صاحبین کا قولِ امام سے اختلاف ہے۔)(تنویر الابصار و درمختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ 222،مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ دہلوی ہندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:’’لو كبر بالفارسية  بان قال”خدا بزرگ است“ او قال ”خدای بزرگ، ”بنام خدای بزرگ“ جاز عند أبی حنيفة رحمه اللہ سواء كان يحسن العربية أو لا يحسن العربية، إلا أنه إذا کان یحسن العربية لا بد من الكراهة‘‘ ترجمہ:اگر کسی نے فارسی میں تکبیر کہی، یعنی یوں کہا:”خدا بزرگ است/خدای بزرگ/ بنام خدای بزرگ“ تو امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک یوں تکبیر کہنا جائز  ہے، خواہ نمازی عربی میں تکبیرِ تحریمہ کہنے  پر قادر ہو یا نہ ہو،ہاں اگر عربی پر قادر ہو تو کراہت(تحریمی) ضرور ہے۔(الفتاویٰ التاتارخانیۃ، جلد1،کتاب الصلاۃ ، صفحہ272،مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”اﷲ اکبر“ کی جگہ کوئی اور لفظ جو خالص تعظیم الٰہی کے الفاظ ہوں،تو اُن سے بھی ابتدا ہوجائے گی،  مگر یہ تبدیل مکروہ تحریمی ہے۔(بھار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ509،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   غیر عربی میں قراءت اور تحقیقِ مَناط:

   جس طرح تکبیرِ تحریمہ کو غیرِ عربی میں پڑھنے کا مسئلہ ہے کہ امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک عجز وغیرِ عجز، دونوں صورتوں میں نماز شروع ہو جائے گی، البتہ بلاعجز، یہ عمل مکروہِ تحریمی ہے اور صاحبین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے نزدیک عجز کی صورت میں تو تکبیرِ تحریمہ کو دوسری زبان میں پڑھنا درست ہے، البتہ بلاعجز پڑھنے سے نماز شروع ہی نہیں ہو گی۔ اِن دونوں آراء میں تکبیرِ تحریمہ کے مسئلہ کی حد تک امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے قول پر فتویٰ  اور بعد میں صاحبین کا قولِ امام کی جانب رجوع کرنا ثابت ہے، جیسا کہ علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا۔ جہاں تک قراءت کا مسئلہ ہے کہ کیا قراءت دوسری زبان میں ہو سکتی ہے؟ تو یہاں بھی اصلاً وہی اختلاف ہے کہ عجز وغیرِ عجز ، دونوں صورتوں میں امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک قراءت معتبر ہے، جبکہ صاحبین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے نزدیک صرف عجز کی صورت میں اجازت ہے، ورنہ نہیں۔ اِس مسئلہ میں فتویٰ صاحبین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے قول پر ہے  اور فقہائے احناف نے صراحت فرمائی کہ قراءت کے مسئلہ میں بھی اولاً اختلافِ ائمہ ثلاثہ تھا، مگر بعد میں امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع  کر لیا تھا۔یہ تمام تحقیق  مختلف فقہاء کے حوالے سے علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بیان کی ہے اور آخر  میں یوں نتیجہ بیان کیا:’’ إنما المنقول أنه رجع إلى قولهما فی اشتراط القراءة بالعربية إلا عند العجز‘‘ ترجمہ:یہی منقول ہے کہ امام اعظمرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صاحبین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا کہ قراءت کا عربی زبان میں ہونا ہی شرط ہے، ہاں اگر کوئی عاجز ہو، تو اُسے غیرِ عربی میں قراءت کرنے کی اجازت ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ224، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اوپر بیان کی گئی تفصیل کا چند حرفی خلاصہ یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ  اور قراءت، دونوں مسائل میں اختلافِ ائمہ ثلاثہ  رہا، مگر تکبیرِ تحریمہ کے مسئلہ میں صاحبین نے امام اعظم کے قول کی جانب رجوع کر لیا اور قراءت کے مسئلہ میں امام اعظم نے قولِ صاحبین کی طرف رجوع کر لیا تھا، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:’’أنهما ‌رجعا ‌إلى ‌قوله بصحة الشروع بالفارسية بلا عجز كما رجع هو إلى قولهما بعدم الصحة فی القراءة فقط‘‘ ترجمہ: مفہوم گزر چکا۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ225، مطبوعہ  کوئٹہ )

   بصورتِ عجز، دوسری زبان میں قراءت کے جواز کے متعلق تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:’’ قرأ بها عاجزا فجائز إجماعا‘‘ ترجمہ:اگر کوئی عجز کے سبب کسی دوسری زبان میں قراءت کرے ،تو بالاجماع جائز ہے۔(تنویر الابصار و درمختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ 224،مطبوعہ کوئٹہ)

   امامِ اہلسنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’قراءتِ قرآن فرض ہے اور وہ خاص عربی ہے غیر عربی میں ادا نہ ہوگی اور نماز نادرست ہوگی اور اِس کے ماورا میں گنہگاری ہے،ہاں جو عاجز محض ہو، تو مجبوری کی بات جُدا ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ323،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ”فتاویٰ امجدیہ“میں سوال ہوا کہ انگریزی، فارسی یا اردو میں نماز پڑھنا کیسا؟ نیز اگر کسی انگریز کو عربی نہ آتی ہو ،تو وہ کیا کرے؟ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِنے جواب دیا:اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے :﴿ فَاقْرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ﴾ترجمہ: جو کچھ تم سےہو سکے،  قرآن میں  سے پڑھو۔ اور قرآن نام ہے ”النظم الدال علی المعنی “ کا،  جیسا کہ ائمہ کرام نے تشریح فرمائی ۔  صرف معنی کا نا م قرآن نہیں،  یعنی اگر وہ معنی دوسرے الفاظ میں ادا کیے جائیں،تو اُس عبارت کو قرآن  نہ کہیں گے، اگرچہ وہ عربی ہی عبارت ہو اور نہ اُس عبارت کوخدا کا کلام کہیں گے کہ کلام خدا  مُنَزَّل ہے اور معجز ہے، اس کے لیے قرآن میں فرمایا گیا﴿ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ﴾اور ظاہر ہے کہ یہ  عبارت نہ معجز ہے ،نہ متحدی  بہ ہے، نہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے،نہ جبرئیل علیہ الصلٰوۃ والسَّلام اِسے لائے،  پھر کیونکر قرآن ہوئی۔ لہذا جب قرآن نہیں،تو اس کا پڑھنا  باوجود قدرت کیونکر  کافی ہوسکتا ہے۔ پس جبکہ عربی عبارت جواس نظم کا غیرہو، اگر چہ مطلب اِس کا یہی ہے،  قرآن نہیں، تو فارسی، اردو ،انگریزی کیونکر قرآن ہوسکیں ۔ قرآن مجیدمیں ارشاد ہوا ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا﴾ دوسری جگہ ارشاد ہوا: ﴿ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ﴾پھر غیرعربی کس طرح قرآن ہوسکے گی، لہذا دوسری زبان میں ترجمہ پڑھنے سے نماز نہ ہوگی  کہ امر الہی کی تعمیل نہ ہوئی ۔ہاں اگر کوئی شخص ایسا  ہوکہ اِس نظم عربی  پر قادر  نہ ہو، تو وہ غیر عربی میں پڑھ سکتا ہے ،نہ اس وجہ سے کہ اس نے قرآن پڑھا بلکہ بوجہ ”اُمِّی “ ہونے  کےاُس پر قراءت فرض نہیں،  وہ بجائے قراء  ت،  جو  کچھ ذکر کرلیتاکافی ہوتا اور جبکہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا،  تو اگرچہ قرآن نہیں،مگر دوسری زبان میں قرآن کا مطلب ہے، لہذا ایسے کاپڑھناکافی ہوگا ۔(فتاویٰ امجدیہ، جلد1،صفحہ96،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

   اِس مسئلہ پر  تعلیق وتذییل قائم کرتے ہوئے فقیہِ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1421ھ/2000ء)  لکھتے ہیں:’’ ترجمہ قرآن کریم ذکرالہی ہے، جسے قرآن مجید کی کوئی آیت یاد نہیں،  اُسے نماز میں بقدر قراءتِ مفروضہ کھڑا رہنا،  فرض اور بقدر قراءت واجبہ  کھڑارہنا،  واجب ،اُس وقت چپ کھڑے رہنے سے بہترہے کہ ذکر کرے۔ یہ ذکر تسبیح و تہلیل ہو  یا  کچھ اور اِس صورت خاص میں اُس نے اگر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا ،تو اِس کی اجازت دی ہے ۔ایسے شخص پرلازم ہے کہ دن رات محنت کر کے قرآن مجید کو یاد کرے  اور یہ کوئی مشکل کام نہیں، توجہ ہوتو چند گھنٹوں میں ”ماتجوز بہ الصلوۃ “ کی مقدار یاد کر سکتا ہے۔‘‘(حاشیۃ فتاویٰ امجدیہ، جلد1،صفحہ97،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

   غیرِ عربی میں اذکارِ نماز:

   دیگر اذکارِ نماز کو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھنے کے متعلق ”الفتاویٰ التاتارخانیۃ“ میں ہے: ’’على هذا الاختلاف لو سبح بالفارسية في الصلاة أو دعا أو أثنى على اللہ تعالى أو تعوذ أو هلل أو تشهد أو صلى على النبی  صلى اللہ  عليه وسلم   بالفارسية في الصلاة ‘‘ ترجمہ:اِسی اختلاف کی بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی نے نماز میں تسبیحات، دعا، ثناء، تعوذ، تہلیل، تشہد یا درودِ ابرہیمی فارسی میں پڑھا ،تو عدمِ عجز کی صورت میں مکروہِ تحریمی ہے اوراگر عجز متحقق ہو، تو مکروہ نہیں۔(الفتاویٰ التاتارخانیۃ، جلد1،کتاب الصلاۃ ، صفحہ272، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتےہیں:’’أما بقية أذكار الصلاة فلم أر من صرح فيها بالكراهة سوى ما تقدم، ولا يبعد أن يكون الدعاء بالفارسية مكروهاً تحريماً في الصلاة وتنزيهاً خارجها‘‘ ترجمہ: گزشتہ مقام کے علاوہ میں نے کسی کو  بھی نماز کے دیگر اذکار  میں  کراہت  کی صراحت کرتے نہیں دیکھا اور یہ کوئی بعید بھی نہیں کہ نماز میں فارسی میں دعا کرنا مکروہ تحریمی اور خارج نماز مکروہ تنزیہی ہو۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ286، مطبوعہ  کوئٹہ)

   جس مقام کی طرف علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِسوى ما تقدم“ کہہ کر اشارہ فرما رہے ہیں، اُس کی تخریج درج ذیل ہے۔ اُس مقام پر تکبیرِ تحریمہ،قراءت اور دیگر اذکارِ نماز کو غیرِ عربی میں پڑھنے پر کلام موجود ہے اور اذکارِ نماز کو غیرِ عربی میں پڑھنے کے متعلق قولِ راجح امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے کہ عند العجز کراہت نہیں، ورنہ کراہتِ تحریمی ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ224، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اِسی مسئلہ کو فقیہ النفس امام قاضی خان اَوْزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ/1196ء) واضح انداز میں یوں لکھتے  ہیں:’’علی ھذا الخلاف جمیع اذکار الصلاۃمن التشھد والقنوت والدعاء وتسبیحات الرکوع والسجود فان قال بالفارسیۃ یا رب بیامر زمرا اذا کان یحسن العربیۃ تفسد صلاتہ وعندہ لا تفسد وکذا کل ما لیس بعربیۃ کالترکیۃ والزنجیۃ والحبشیۃ والنطبیۃ‘‘ ترجمہ:اِسی اختلاف کی بنیاد پر تمام اذکارِ نماز  یعنی تشہد، قنوت، دعا اور تسبیحات رکوع وسجود کا مسئلہ ہے، چنانچہ اگر کسی نے فارسی میں یوں کہا:”یا رب بیامر زمرا“ اگر تو وہ عربی نظم بولنے پر قادر تھا ،تو صاحبین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہماکے نزدیک اُس کی نماز فاسد ہو جائے گی، جبکہ امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک اُس کی نماز فاسد نہ ہو گی۔ یہی حکم  فارسی کے علاوہ ہر زبان کے متعلق ہے کہ جو عربی نہ ہو، مثلاً ترکی، زنجی، حبشی یا نبطی زبان۔(فتاویٰ قاضی خان، جلد1، صفحہ 82، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   اِس مسئلہ میں بھی تکبیرِ تحریمہ کی طرح قولِ امام پر  فتویٰ ہے۔

   غیرِ عربی میں تلبیہ:

   علامہ دہلوی ہندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:’’لو لبی بالفارسیۃ عند الاحرام او بای لسان کان سواء یحسن العربیۃ او لا جاز بالاتفاق‘‘ ترجمہ:اگر کسی نے احرام باندھتے وقت فارسی یا کسی بھی دوسری زبان میں تلبیہ پڑھا، خواہ وہ عربی تلبیہ پر قادِر تھا یا نہیں، بہر دو صورت بالاتفاق تلبیہ درست ہو گا۔(الفتاویٰ التاتارخانیۃ، جلد1، کتاب الصلاۃ ، صفحہ272،مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   فخر الدین علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:743ھ/1342ء) لکھتےہیں:’’يصير شارعا بذكر يقصد به التعظيم فارسية كانت أو عربية في المشهور عن أصحابنا‘‘ ترجمہ:محرم  ہر ایسے ذکر کے ساتھ احرام شروع کرنے والا ٹھہرے گا کہ جس ذکر سے تعظیمِ الہی  مقصود ہو، خواہ وہ ذکر فارسی میں ہو یا عربی زبان میں۔ یہ ہمارے اصحابِ احناف کا قولِ مشہور ہے۔(تبیین الحقائق، جلد2،کتاب الحج، باب الاحرام، صفحہ 256،مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتےہیں:’’ولو بالفارسية  أو غيرها ‌كالتركية والهندية كما في اللباب، وأشار إلى أن العربية أفضل كما في الخانية‘‘ترجمہ:تلبیہ اگرچہ فارسی یا کسی اور زبان مثلاً: ترکی یا ہندی میں پڑھا جائے، اِس کی اجازت ہے، جیسا کہ ”لباب المناسک“ میں ہے۔ ماتِن نے اشارۃً یہ بھی فرمایا کہ عربی میں تلبیہ پڑھنا افضل ہے، جیسا کہ اِس کی تصریح ”الفتاویٰ الخانیۃ“ میں  بھی ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد3، فصل فی الاحرام، صفحہ561، مطبوعہ  کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم