Sirf Taraweeh Ke Liye Darhi Rakhne Wale Hafiz Ke Piche Namaz Ka Hukum

صرف تراویح کے لیے داڑھی رکھنے اور بعد میں کٹوا دینے والے حافظ کے پیچھے نماز

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر: Aqs-1570

تاریخ  اجراء: 07 شعبان المعظم  1440  ھ/13 اپریل 2019 ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض حافظ سار ا سال داڑھی  منڈاتے یا کٹوا کر ایک مٹھی سے کم رکھتے ہیں اور رمضان المبارک سے ایک ،دو ماہ پہلے کٹوانا چھوڑ دیتے ہیں اور تراویح کے لیے امام بن جاتے ہیں اوررمضان گزرتے ہی معاذ اللہ ! دوبارہ کٹوا دیتے ہیں، ایسوں کے پیچھے تراویح پڑھنا یا ان کو تراویح کے لیے امام بنانا کیسا ہے ؟ اور ایسے حافظ عموماً یہی کہتے ہیں کہ ہم نے داڑھی کٹوانے سے توبہ کرلی ہے ، آئندہ ایسا نہیں کریں گے ، لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ وہ رمضان کے بعد دوبارہ کٹوا لیتے ہیں ۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ ایسے حافظ کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مٹھی سے کم کرنا حرام ہے، لہذا داڑھی منڈے یا خشخشی داڑھی رکھنے والے امام کے پیچھے کوئی بھی نماز ،چاہے فرض ہویا تراویح ، پڑھنا جائز نہیں اور اسے امام بنانا بھی ناجائز وگناہ ہے اور اس کے پیچھے اگر نماز پڑھ لی ، تو وہ مکروہ تحریمی ، واجب الاعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔

   لہذا وہ حافظ جس کے بارے میں  مشاہدہ یہی ہے کہ  رمضان میں تروایح کے لیے کچھ ماہ تک داڑھی کٹوانا چھوڑدیتا ہے اور تراویح سنانے کے بعد دوبارہ اسی حالت پر پھر جاتا ہے، تواس کوہرگز امام نہ بنایا جائے ،جب تک رمضان کے بعد بھی ایک ،دو سال تک بہتری والی حالت واضح نہ ہوجائے ۔ حافظ کا یہ کہنا کہ میں نے توبہ کر لی ہے ۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا ہے ، لیکن ہم اس کو اس وقت تک امام نہیں بنائیں گے ، جب تک اس کی ظاہری حالت قابل اطمینان نہ ہوجائے ۔

   داڑھی سے متعلق بخاری شریف میں ہے: ”عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ“ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جومٹھی سے زائد ہوتی ، اسے کاٹ دیتے تھے۔(صحیح البخاری، جلد 2،صفحہ 398 ، مطبوعہ لاهور)

   امام کمال الدین ابن ہمام علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”واما الاخذ منھا وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد“ترجمہ :  داڑھی ایک مٹھی سے کم کروانا جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور زنانہ وضع کے مرد کرتے ہیں ،  اسے کسی نے بھی مباح نہیں قرار دیا۔( فتح القدیر ، جلد2 ، صفحہ 352 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدددین وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں : ”داڑھی کترواکر ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد23 ، صفحہ 98، رضا فاؤنڈیشن ، لاهور)

   ایک مٹھی سے کم داڑھی والے کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ، واجب الاعادہ ہے ۔چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں : ” داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔“(فتاوی رضویہ ، جلد6 ، صفحہ 603، رضا فاؤنڈیشن ، لاهور)

   داڑھی ترشواکرایک مٹھی سے کم کرنے والے کو امام بنانابھی گناہ ہے ۔ جیساکہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :” وہ فاسق معلن ہے اور اسے امام کرنا گناہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہ تحریمی۔ غنیہ میں ہے:’’ لوقدموا فاسقا یاثمون “اگر لوگوں نے فاسق کو مقدم کیا تو وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔“      (فتاوی رضویہ ،  جلد 6، صفحہ544، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   فاسق کی توبہ کے قبول کرنے اور اسے امام بنانے کے بارے میں سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:” اللہ عزوجل اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہ بخشتا ہے۔﴿ وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَ یَعْفُوۡا عَنِ السَّیِّاٰتِ ﴾ (یعنی : اور وہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہ معاف کرتا ہے)جو لوگ توبہ نہیں مانتے ، گنہگار ہیں، ہاں اگر اس کی حالت تجربہ سے قابل اطمینان نہ ہو اور یہ کہیں کہ تونے توبہ کی اللہ توبہ قبول کرے۔ ہم تجھے امام اس وقت بنائیں گے ، جب تیری صلاح حال ظاہرہو ، تو یہ بجا ہے۔ “(فتاوی رضویہ ، جلد6 ، صفحہ605 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

    فسق اعلانیہ کا مرتکب شخص اگر اپنے گناہ سے توبہ کرلے اور توبہ کے بعد اس کی ظاہری حالت قابل اطمینان ہوجائے ، تواس کو امام بنانے میں حرج نہیں ۔ جیساکہ سیدی اعلیٰ حضرت سے فاسق معلن جس نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی تھی ، اس کی امامت کے بارے میں سوال ہوا ، توآپ نے جواب میں فرمایا: ” جب بعد توبہ صلاح حال ظاہر ہو ، اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں ، اگر کوئی مانع شرعی نہ ہو۔“(فتاوی رضویہ ، جلد6 ، صفحہ605 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ بعض حفاظ کرام رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کے لیے داڑھی منڈوانا چھوڑ دیتے ہیں تا کہ تراویح پڑھا سکیں ، کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟

   تو                                                  آپ نے جواباً ارشاد فرمایا : ’’مذہب صحیح پر ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ منڈوانے والا یا کاٹ کر حد شرعی سے کم کرنے والا فاسق ہے ۔ فاسق کی امامت مکروہ اور اس کو امام بنانا گناہ ہے ۔ اس کے پیچھے جو نمازیں پڑھی جائیں گی ، ان کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔ فرض اور تراویح سب کا حکم ایک ہی ہے ۔ جو حفاظ ایسا کرتے ہیں کہ رمضان میں داڑھی رکھتے ہیں اور رمضان کے بعد کٹوا دیتے ہیں ، وہ عوام اور شریعت کو دھوکہ دیتے ہیں اور شریعت کو دنیا کمانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، ان لوگوں کے قول وفعل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘(وقارالفتاوی،جلد2،صفحہ 223،مطبوعہ بزم وقارالدین ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم