Tisri Rakat Mein Qada Ola Karne Ka Hukum

تیسری رکعت میں قعدہ اولی کرنے کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2563

تاریخ اجراء: 01رمضان المبارک1445 ھ/12مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص چار رکعت والی  فرض نماز  کی دوسری رکعت میں قعدہ اولی کرنا بھول گیا،اور اسے تیسری رکعت کا سجدہ کرتے وقت یاد آیا کہ اس نے قعدہ اولی نہیں کیا۔لہذااب  اس نے   اسی  تیسری رکعت  کے سجدے سے فارغ ہوکر  قعدہ  اولی کرلیا  اور آخر میں  سجدہ سہو کرکے  نماز مکمل کی۔کیا ایسی صورت میں اس کی وہ نماز ہوگئی  یا اُسے دوبارہ ادا کرنی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جب وہ شخص دوسری رکعت پر  قعدہ اولی   کرنا   بھول گیا   تھا  اور تیسری رکعت کیلئے کھڑا  ہوگیا تھا،تو اسے چاہئے  تھا کہ وہ یاد آنے پر بھی  نماز کو یونہی  جاری رکھتا اور نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز پوری کرلیتا، اس طرح اس کی نماز بغیرکسی نقصان کے درست ہوجاتی۔مگراب  جبکہ اس نےایسا نہیں کیا اور یاد آنے پر تیسری رکعت پر قعدہ کرلیا ،تو شرعاً یہ جان بوجھ کر ایک واجب کا ترک کر نا  ہوا ،کیونکہ تیسری رکعت  کے آخر میں قعدہ   نہ کرنا واجب ہے،اور  اُس نے قعدہ کرکے اِس واجب کا ترک کیا،  جس سے جان بوجھ کر فرض قیام میں تاخیر ہوئی ،لہذااب جان بوجھ کر نماز کےواجب کو  چھوڑنے کی وجہ سے اُسے سجدہ سہو کرنا  کافی نہ ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں  وہ نماز واجب الاعادہ ہوگی ،لہذا اسے وہ   نماز ،واجب الاعادہ کی نیت سے دوبارہ  ادا کرنا ہوگی۔

   قعدہ اولی بھول کر سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں سجدہ سہو کافی ہوتا ہے،جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ  رحمۃ الرحمن   فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اگر(قعدہ اولی بھول کر) سیدھا کھڑا ہوگیا ،تو پلٹنے کا اصلا حکم نہیں بلکہ ختم نماز پر سجدہ سہو کر لے ۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ،جلد8،صفحہ181،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   تیسری رکعت پر قعدہ کرنے سے متعلق، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’القعدۃ فی آخر الرکعۃ الاولی أو الثالثۃ فیجب ترکھا،ویلزم  من فعلھا ایضاً تاخیر القیام  الی الثانیۃ أو الرابعۃ عن محلہ وھذا اذا کانت القعدۃ طویلۃ‘‘ترجمہ:پہلی یا تیسری رکعت کے آخر میں قعدہ  نہ کرنا واجب ہے اور اس کو کرنے سے دوسری یا چوتھی رکعت کے (فرض)قیام کا  اپنے محل سے مؤخر ہونا لازم آئے گا جبکہ یہ قعدہ طویل ہو۔ (رد المحتار علی الدر المختار،جلد   2، صفحہ201،مطبوعہ کوئٹہ)

   نماز کے کسی واجب کو عمداً چھوڑدینے سے نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے،فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ان ترک ساھیا یجبر بسجدتی السھو وان ترک عامداً لا،کذا فی التتارخانیۃ،وظاھرکلام الجم الغفیر أنہ  لایجب السجود فی العمد وانما تجب الاعادۃ جبراً لنقصانہ کذا فی البحر الرائق‘‘ترجمہ:اگر کوئی واجب  بھول کر ترک ہواتو سجدہ سہو سے اس کی تلافی کردی جائے گی اور اگر جان بوجھ کر چھوڑا ہے توسجدہ سہو سے تلافی نہیں ہوگی، اسی طرح تتارخانیہ میں ہے۔ایک بڑی جماعت کا ظاہر کلام یہی ہے کہ جان بوجھ کر واجب چھوڑنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا بلکہ اس نقصان کو پورا کرنے کیلئے نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے،اسی طرح بحر الرائق میں ہے۔(الفتاوی الھندیہ،جلد1،باب سجود السھو،صفحہ139،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم