Watan Iqamat Mein Saman Rakha Ho To Phir Bhi Shari Safar Se Batil Ho Jaye Ga ?

وطن اقامت میں سامان رکھا ہو، تو پھر بھی سفرِ شرعی سے باطل ہوجائے گا؟

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق:مفتی محمدہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:122

تاریخ اجراء: 21جمادی الثانی1443ھ/25جنوری2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ علمائے کرام سے سُن رکھا تھا کہ کسی کی وطن اقامت میں پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت ہے، تواس کے لئے وہاں قصر نماز ہوگی۔ اب ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ وطن اقامت میں اگر اس کا ایک کمرہ ہے ، جس میں اس کاضروریات کاسامان ہے اور اس کی چابی بھی اس کے پاس ہے، تو اگر کسی بھی وقت اس نے وہاں پندرہ دن رہنے کی نیت کرلی تو مقیم ہو جائے گا۔ وطنِ اقامت،وطنِ اصلی میں آنے جانے کی وجہ سے باطل نہ ہوگا۔ وطن اصلی سے وطن اقامت میں آتے ہی وہ مقیم ہوجائے گا،اگرچہ وطن اقامت میں اس نے پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کی ہو۔

   ان کی دلیل بحرکایہ جزئیہ ہے : ”وفی المحیط: ولوکان لہ اھل بالکوفة واھل بالبصرة، فمات اھلہ بالبصرة لاتبقی وطنا لہ، وقیل: تبقی وطنا،لانھا کانت وطنا لہ بالاھل والدار جمیعا فبزوال احدھما لایرتفع الوطن، کوطن الاقامة یبقی ببقاء الثقل وان اقام بموضع آخر۔ ملخصا“ ترجمہ:اورمحیط میں ہے: اگرکسی کی ایک بیوی کوفہ میں اور ایک بیوی بصرہ میں ہو،پھر بصرہ والی بیوی فوت ہوجائے ،تو بصرہ اس کا وطن باقی نہ رہے گا اور کہا گیا ہے کہ بصرہ وطن باقی رہے گا،کیونکہ وہ اس کی بیوی اورگھردونوں کی وجہ سےاس کاوطن تھا،توان میں سے ایک کے ختم ہونے سے وطن ختم نہیں ہوگا۔جیسے وطن اقامت سامان کے باقی رہنے سے باقی رہتاہے، اگرچہ دوسرے مقام پراقامت اختیار کی ہو۔ )بحرالرائق، جلد 2، صفحہ 239،مطبوعہ کوئٹہ(

   اس سے دلیل یوں لی گئی ہے کہ : صاحبِ بحر نے تصریح کی ہے کہ بقاء ثقل یعنی سامانِ رہائش وغیرہ کے باقی رہنے سے وطن اقامت باقی رہتا ہے، اگرچہ دوسری جگہ سفر اختیار کرلے۔

   اور دوسری دلیل بدائع کا یہ جزئیہ ہے :”وینقض بالسفر ایضا، لان توطنہ فی ھذا المقام لیس للقرار، ولکن لحاجة، فاذا سافر منہ یستدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضاً لہ دلالة“ترجمہ:اور وطن اقامت ،سفرسے بھی ختم ہوجاتاہے، کیونکہ اس کا اس مقام پر وطن بنانا ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں ہے ،بلکہ حاجت کے لیے ہے پس جب وہ اس مقام سے سفرکرے گا،تو اس سے اس کی حاجت پوری ہونے پر دلیل پکڑی جائے گی، تو وہ اس جگہ کو وطن بنانے سے اعراض کرنے والا ہوجائےگا اور اس وطن کو دلالۃً ختم کرنے والا ہوجائے گا۔ (بدائع الصنائع ،جلد 1، صفحہ 498،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس سے دلیل یوں لی گئی ہے کہ:امام کاسانی رحمۃ  اللہ علیہ کی مذکورہ تعلیل سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ وطن اقامت کو باطل کرنے والے سفر سے مراد یہ ہے کہ اب یہاں رہائش کی حاجت نہ رہے اور جانے والا اس مقام کی وطنیت کو ختم کردے اور یہ اس سفر میں ہوتا ہے جو کہ بصورت ارتحال ہوتا ہے اور وطن اقامت میں کچھ بھی نہ رہے۔ اس کے برخلاف جس شہر یا جگہ میں کامل رہائش ہے، رہائش کی نیت بھی ہے اور رہائش کا سامان بھی وہیں ہے، اگرچہ وہ اس کا وطن اصلی نہیں ہے، تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس شخص نے اپنا وطن اقامت ختم نہیں کیا۔

اس پس منظرمیں چندسوالات کے جوابات درکارہیں :

   (1)کیاایساہے کہ سامان کی وجہ سے وطن اقامت باقی رہتاہے،باطل نہیں ہوتا،اگرچہ وہ وہاں سے سفرشرعی کی مسافت پرچلاجائےیاوطن اصلی میں بھی چلاجائے ؟

   (2)اگرایسانہیں ہے توپھرجوجزئیات اوپرمذکورہوئے ان کاکیاجواب ہوگا؟

   (3)ایک دینی طالب علم جوکم ازکم ایک سال تک کسی مدرسہ میں قیام کا ارادہ رکھتا ہو، اور وہ ایک بار پندرہ دن سے زائد کی نیت سے مذکورہ مدرسہ میں قیام کرچکا ہے ۔اور وہ مدرسہ اس کے وطن سے شرعی مسافت پرہو، اب اگر وہ مدرسہ میں پندرہ دن سے کم کی نیت سے آئے، تو کیا مدرسہ میں قصر نماز پڑھے یا پوری ؟ جبکہ وہ مدرسہ کے جس کمرہ میں رہتا ہے اس کے مشترکہ تالے کی ایک چابی اس کے پاس ہے، اس کا ذاتی بستر، چار پائی،پیٹی اور کپڑوں کا بیگ وغیرہ مدرسہ میں ہوتا ہے۔یہی معاملہ اگرکسی ملازم کے ساتھ پیش آئے کہ وہ سفرشرعی کی مسافت پر موجود اپنی جائے ملازمت پرمالک کی طرف سے ملنے والاایک عارضی کمرہ رکھتاہے ،جس میں اس کاسامان وغیرہ ہے اوروہاں ایک مرتبہ وہ وطن اقامت اختیارکرلیتاہے،تواب وہاں سے اپنے وطن اصلی مسافت شرعی کی مدت پرجانے کی صورت میں اس کاوطن اقامت باطل ہوگایانہیں ؟

   (4)اب تک اگر وہ طالب علم شرعی مسافت طے کرکے، پندرہ دن سے کم رہنے کی صورت میں قصر نمازیں پڑھتا اور پڑھاتا رہا، تو اس کی ان گزشتہ نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)وطن اقامت  کے ختم ہونے کے لیے تین میں سے ایک شرط پائی جائے، تووہ ختم ہوجاتاہے۔

   (الف)کسی اورجگہ کووطن اقامت بنالینا۔

   (ب)وطن اقامت سے سفرشرعی اختیارکرنا۔

   (ج)وطن اصلی چلے جانا۔

   محیط رضوی میں ہے:"ووطن الاقامۃ یبطل بالوطن الاصلی وبوطن الاقامۃ لانہ مثلہ وبانشاء السفر"ترجمہ:اور وطن اقامت باطل ہوجاتاہے وطن اصلی کے ساتھ اور وطن اقامت کے ساتھ کیونکہ یہ اس کی مثل ہے اورسفرکرنے کے ساتھ۔(المحیط الرضوی،کتاب الصلاۃ،جلد01،صفحہ387،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   جب ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط پائی جائے گی،تووطن اقامت باطل ہوجائے گا، اگرچہ اس کاسامان وہاں پرموجودہو۔سامان کا موجود رہنا،اس وقت تک کفایت کرے گا،جب تک ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی شرط نہ پائی جائے ،جب ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط پائی جائےگی،تو اب سامان کا وطن اقامت میں ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا، وطن اقامت باطل ہو جائے گا۔

   اس پرایک دلیل یہ ہے کہ وطن کی ایک قسم کانام ہے ”وطن سُکنیٰ“یعنی وطن اصلی کے علاوہ کسی مقام پرپندرہ دن سے کم رہنا۔

   حلبۃ المجلی میں ہے :"الاوطان عندالجمھورثلاثۃ:وطن اصلی ووطن اقامۃ و وطن سکنی : وھو ماینوی الاقامۃ فیہ اقل من خمسۃ عشر۔ملخصاً"ترجمہ: جمہور کے نزدیک وطن تین اقسام کے ہیں :وطن اصلی،وطن اقامت اور وطن سکنی اور یہ وہ ہے جس میں پندرہ  دن سے کم اقامت کی نیت کرے ۔(حلبۃ المجلی، فصل فی صلاۃ المسافر،جلد 02، صفحہ 529،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   اگرکوئی وطن سکنی میں اپنا سامان رکھ کرچلاجائے اورکسی اورمقام پروطن سکنی بنالے، تو اب اس کاپہلاوطن سکنی باطل ہوجاتاہے ،اگرچہ اس کاسامان پہلے وطن سکنی میں باقی ہے اوراگر وہ سفرشرعی سے کم مسافت پرجائے اوروطن سکنی بنانے سے پہلے لوٹ آئے،تواس کاپہلاوطن سکنی باقی رہے گا۔

   چنانچہ بحرالرائق میں جس محیط رضوی کے حوالے سے وہ مسئلہ ذکرہوا،جسے سوال میں ذکر کیا گیاہے ،اسی محیط رضوی میں وطن سکنی والا مسئلہ یوں مذکورہے :

   "کوفی خرج الی القادسیۃ لحاجۃ ،ثم خرج منھاالی الحیرۃ لحاجۃ ثم خرج منھایریدالشام ولہ بالقادسیۃ ثقل یریدان یحملہ فمربھایصلی رکعتین لان وطنہ بالقادسیۃ کانت وطن سکنی وقدظھرلہ بالحیرۃ وطن سکنی فیبطل بہ الاول ،و لو خرج من القادسیۃ الی الحیرۃ فقبل ان یصل الی الحیرۃ رجع الی القادسیۃ لیحمل ثقلہ منھا ویرتحل الی الشام صلی اربعا بالقادسیۃ لانہ لم یظھرلہ بالحیرۃ وطن سکنی آخر مالم یدخلھا فلایبطل وطنہ السکنی بالقادسیۃ کما لوخرج منھا لبول او غائط اولیشیع جنازۃ اولاستقبال قادم لایبطل وطنہ بالقادسیۃ" ترجمہ:کوفہ کارہنے والاکسی حاجت سے قادسیہ کی طرف گیا،پھروہاں  سے حیرہ کی طرف کسی حاجت سے گیا،پھروہاں سے شام کے ارادے سے نکلااورقادسیہ میں اس کاسامان ہے ، وہ اسے اٹھاناچاہتا ہے،پس وہ قادسیہ سے گزرا ،تو دو رکعتیں پڑھے گا،کیونکہ قادسیہ میں اس کا وطن ،وطن سکنی تھا اور حیرہ میں اس کا وطن سکنی ثابت ہوگیا،تو اس کی وجہ سے پہلاوطن سکنی باطل ہوجائے گا اور اگرقادسیہ سے حیرہ کی طرف نکلا،پس حیرہ پہنچنے سے پہلے ہی قادسیہ کی طرف  واپس لوٹا،تاکہ وہاں سے اپنا سامان اٹھائے اور شام کی طرف کوچ کرے، تو قادسیہ میں چار رکعات اداکرے گا، کیونکہ جب تک وہ حیرہ میں داخل نہیں ہوا، تو حیرہ میں اس کا دوسرا وطن سکنی ثابت نہیں ہوا، پس اس کاقادسیہ کا وطن سکنی باطل نہیں ہوگا۔جیسے اگروہ قادسیہ سے پیشاب،پاخانہ کے لیے یاجنازے میں شرکت یاکسی آنے والے کااستقبال کرنے کے لیے نکلتا،تواس کا قادسیہ والاوطن باطل نہ ہوتا۔)المحیط الرضوی ،جلد01،صفحہ387-388،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت(

   اس سے واضح ہواکہ سامان کاباقی رہنااس وقت تک کفایت کرے گاجب تک کہ پہلا وطن باطل نہ ہوجائے ،جب پہلاوطن باطل ہوجائے ،تواب سامان کاباقی رہناکفایت نہیں کرے گا، لہٰذاہماری صورت میں بھی جب تک وطن اقامت باطل نہیں ہوگا،اس وقت تک سامان کااس مقام پررہناکفایت کرے گا،لیکن جب تین شرائط میں سے کسی ایک کے ساتھ وطن اقامت باطل ہوجائے گا،تواب سامان کاوہاں رہنامفیدنہیں ہوگا۔

   بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:"إن وطن السكنى ينتقض بالكل، صورته رجل خرج من النيل وهو سواد الكوفة وبينهما أقل من مسيرة ثلاثة أيام ونزل بالكوفة ثقلة، ثم خرج من الكوفة إلى القادسية يطلب غريمه، ثم خرج من القادسية يريد الشام، ويريد أن يمر بالكوفة، فإنه يصلي بالكوفة ركعتين، لأن وطن سكناه بالقادسية أبطل وطن سكناه بالكوفة بتركه متاعه فيها، فإن نوى بالقادسية أن يقيم بها خمسة عشر يوما بطل سكناه بالكوفة، لأن وطن السكنى يبطل بوطن الإقامة، و كذلك إذا انتقل إلى القادسية بأهله ومتاعه يصلي بالكوفة ركعتين، لأن وطن السكنى يبطل بالوطن الأصلي" ترجمہ:وطن سکنی ،وطن کی تمام اقسام سے باطل ہوجاتاہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ :ایک شخص نیل سے نکلااورنیل کوفہ کاگاؤں ہے ،اورکوفہ اورنیل کے درمیان تین دن کی مسافت سے کم سفرہے ،اورکوفہ میں اس نے سامان کے ساتھ پڑاؤکیا،پھر اپنے مقروض کی تلاش میں کوفہ سے قادسیہ کی طرف نکلا، پھرقادسیہ سے شام کے ارادے سے نکلااورکوفہ پر گزرنا چاہتاہے تووہ کوفہ میں دورکعتیں پڑھے گا،کیونکہ کوفہ میں سامان چھوڑنے کے ساتھ، اس نے جو وطن سکنی بنایا تھا،اسے قادسیہ کے وطن سکنی نے باطل کردیا،اوراگرقادسیہ میں پندرہ دن رہنے کی نیت کرے تب بھی اس کاکوفہ کاوطن سکنی باطل ہوجائے گا، کیونکہ وطن سکنی ،وطن اقامت سے باطل ہوجاتاہے اوراسی طرح جب قادسیہ اپنے اہل اورسامان کے ساتھ منتقل ہوجائے، توکوفہ میں دو رکعتیں اداکرے گا ،کیونکہ وطن سکنی،وطن اصلی سے باطل ہوجاتاہے ۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،جلد 03، صفحہ 272،مطبوعہ ملتان)

   اس سے بھی واضح ہواکہ سامان چھوڑنااس وقت تک کفایت کرتاہے ،جب تک پہلاوطن باطل نہ ہواہو،جب کسی طریقے سے پہلا وطن باطل ہوجائے ،خواہ اسی کے مثل وطن کے ذریعے تواب وہاں سامان رہناکفایت نہیں کرے گا۔نیزاس سے یہ بھی پتاچلاکہ وطن باطل ہونے کی وہی معروف صورتیں ہیں کہ اپنے مثل سے یا اپنے سے زائد والی صورتوں وغیرہ کے ساتھ باطل ہوجاتاہے ،اگرچہ پہلے وطن میں سامان موجودہو۔

فتاویٰ رضویہ میں اس حوالے سے واضح طورپرموجودہے کہ وطن اقامت میں اگرچہ گھر       والے بھی ہوں ،تب بھی سفرشرعی کی مسافت طے کرکےواپس وطن اقامت میں آئے گا،تو دوبارہ وطن اقامت بنانے کے لیے پندرہ دن قیام کی نیت کرنی ہوگی ۔

   چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں سوال ہوا:"کوئی شخص اپنے وطن اصلی سے سفر کر کے دوسری جگہ میں جو سفر شرعی تین منزل سے زائد ہے بضرورت تعلقات تجارت یا نوکری وغیرہ کے جارہا ہو ،مگر اہل وعیال اس کے وطن اصلی میں ہوں اور اکثر قیام اُس کا وطن ثانی میں رہنا ہوگا ہی ، سال بھر میں مہینہ دو مہینہ کے واسطے اہل و عیال میں بھی رہ جاتا ہو یا بعض اہل کو ہمراہ لے جائے اور بعض کو وطن چھوڑ جائے یا کل متعلقین ہمراہ لے جائے صرف مکانات وغیرہ کا تعلق وطن اصلی میں باقی ہو اور ان سب صورتوں میں ان کا زیادہ تر اور اکثر قیام وطن ثانی میں رہتا ہے اور کم اتفاق رہنے کا وطن اصلی میں ہوتا ہے اور بظاہر وجہِ قیام ثانی کے وہی تعلقات جدید ہیں اور درصورت قطع تعلقات جدیدہ کے وطن اصلی میں واپس آجانے کا بھی قصدرکھتا ہے، ایسی صورت میں یہ شخص کہیں سے سفر کرتا ہوا وطن ثانی میں آئے اور ۱۵ روز قیام کا قصد نہ رکھتا ہو،تو صلاۃ رباعیہ کو پورا پڑھے مثل وطن اصلی کے یا قصر کرے مثل مسافروں کے ؟ بینوا توجروا"

   اس کے جواب میں فرمایا:"جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے نہ وہاں اس نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا،بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجت اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام ایک وجہ خاص سے ہے نہ مستقل ومستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا جب تک ۱۵ دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا کہ وطن اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے۔"(فتاوی رضویہ،جلد 08،صفحہ 271،مطبوعہ رضافاونڈیشن،لاہور)

   (2)سوال میں ذکرکردہ جزئیات کاجواب:

(الف)بحرالرائق کے جزئیہ کاجواب :اس میں جویہ عبارت ہے :" کوطن الاقامة یبقی ببقاء الثقل وان اقام بموضع آخر" (جیسے وطن اقامت سامان کے باقی رہنے سے باقی رہتاہے، اگرچہ دوسرے مقام پراقامت اختیارکی ہو۔)اس کی وضاحت یہ ہے کہ :

   اوپرجوہم نےتفصیل ذکرکی،اس کے مطابق جب تک پہلاوطن باطل نہ ہواہو،تب تک وہاں سامان باقی رہنا کفایت کرتاہے، لیکن اگر پہلا وطن باطل ہو جائے، تو پھر سامان باقی رہنا کفایت نہیں کرتا۔اس تفصیل کے مطابق بحرکے جزئیہ میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ دوسرے مقام پر اقامت اس طریقے سےاختیار کی گئی کہ جس سے وطن اقامت باطل ہوسکتاہے (یعنی سفر شرعی کرکے یادوسرے مقام پرپندرہ دن یا زائد رہنے کی نیت کے ساتھ یا وطن اصلی میں جاکر) ، لہٰذا اس سےمفتی صاحب کا استدلال بھی نہیں ہوسکتا، بلکہ اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تو یہاں دوسرے  مقام پراقامت سے مرادیہی ہوگاکہ سفرشرعی کیےبغیر،وطن اصلی کے علاوہ پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت سےدوسرے مقام پراقامت اختیارکی یعنی وطن سکنی بنایا، تو اس سے وطن اقامت باطل نہیں ہوگا،کیونکہ وطن اقامت باطل کرنے والی تین شرطوں میں سے کوئی بھی نہیں پائی گئی ۔

   ردالمحتارمیں ہے :"(قوله والأصل أن الشيء يبطل بمثله) كما يبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي و وطن الإقامة بوطن الإقامة و وطن السكنى بوطن السكنى،  وقوله: وبما فوقه أي كما يبطل وطن الإقامة بالوطن الأصلي وكما يبطل وطن السكنى بالوطن الأصلي وبوطن الإقامة، وينبغي أن يزيد وبضده كبطلان وطن الإقامة أو السكنى بالسفر فإنه في البحر علل لذلك بقوله لأنه ضده (قوله لا بما دونه) كما لم يبطل الوطن الأصلي بوطن الإقامة ولا بوطن السكنى ولا بإنشاء السفر وكما لم يبطل وطن الإقامة بوطن السكنى "ترجمہ: اور اصل یہ ہے کہ شے اپنی مثل کے ساتھ باطل ہوجاتی ہے جیسے وطنِ اصلی، وطنِ اصلی سے باطل ہوجاتاہے اور وطن اقامت،وطن اقامت سے باطل ہوجاتاہے اور وطن سکنی ،وطن سکنی سے باطل ہوجاتاہے اورشے اپنے سے بڑھ کرشے کے ساتھ بھی باطل ہوجاتی ہے جیسے وطن اقامت، وطن اصلی کے ساتھ باطل ہوجاتاہے اورجیسے وطن سکنی ،وطن اصلی اوروطن اقامت کے ساتھ باطل ہوجاتاہے اوریہ اضافہ بھی ہوناچاہیے اور اپنی ضدکے ساتھ بھی شے باطل ہوجاتی ہے جیسے وطن اقامت یاسکنی کا سفرسے باطل ہوناکہ بحرمیں اس کی علت اس طرح بیان فرمائی ہے کہ سفر،اقامت کی ضد ہے۔شے اپنے سے کم درجہ شے کے ساتھ باطل نہیں ہوتی جیسے وطن اصلی، وطن اقامت سے بھی باطل نہیں ہوتااوروطن سکنی سے بھی باطل نہیں ہوتااورسفرکرنے سے بھی باطل نہیں ہوتا اور جیسے وطن اقامت،وطن سکنی سے باطل نہیں ہوتا۔(رد المحتار،جلد 2،صفحہ 741،مطبوعہ کوئٹہ)

   (ب)بدائع کے جزئیہ کاجواب:

   فقہائے کرام نےسفرشرعی سے وطن اقامت باطل ہونے کی مختلف طریقے سے تعلیل فرمائی ہے،جن میں سے ایک تعلیل وہی ہے ،جوبدائع میں ہے اورایک تعلیل دوسری کتب میں یہ فرمائی گئی کہ سفر،اقامت کی ضدہے ،اورشے کااپنی ضدکے ساتھ وجودنہیں رہتا،لہذاجب سفر پایا گیا  ، تو اقامت باطل ہوجائے گی ۔جیسے اوپرردالمحتارمیں بحرکے حوالے سے گزرا۔نیزمحیط رضوی میں ہے:"ووطن الاقامۃ یبطل۔۔۔بانشاء السفرلانہ ضدہ والشئی لایبقی مع وجود   ضدہ" ترجمہ:اوروطن اقامت سفر کی ابتدا کرنے سے باطل ہوجاتاہے،کیونکہ سفر،اقامت کی ضدہے اورشےاپنی ضدکے پائے جانے کی صورت میں باقی نہیں رہتی ۔(المحیط الرضوی،کتاب الصلاۃ،جلد01، صفحہ387،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   یہ دوسری تعلیل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جب بھی سفرپایاجائے گا،تواقامت باطل ہوجائے گی، اگرچہ وطن اقامت میں اس کاسامان بھی موجودکیوں نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں بھی سفراقامت کی ضدہی ہے ۔اوربدائع کی تعلیل اس کے مخالف نہیں ، کیونکہ بدائع میں یہ کہاگیاہے کہ "بندہ وطن اقامت سے سفر تبھی کرتاہے ،جب اس کی حاجت پوری ہوجائے توسفرکرنااس بات کی دلیل ہے کہ حاجت پوری ہوچکی ۔"

   اس کی وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے سفرمیں مشقت ہونے کے باعث کئی رخصتیں ہیں،مثلاً:نمازمیں قصرکرنے اور روزہ افطارکرنے وغیرہ کی لیکن سفرکو مشقت کاقائم مقام کردیاگیا، تو اب اگرچہ بظاہرکوئی انتہائی آرام دہ سفر اختیار کرے، تب بھی مذکورہ بالارخصتیں اس کوملیں گی ، اسی طرح سفرکوحاجت پوری ہونے کے قائم مقام کردیاگیاکہ سفرکرنا ہی اس بات کی دلیل ہوگا کہ اس کی حاجت پوری ہوچکی ہے، لہٰذایہ سفرکوختم کرناچاہتاہے،اسی وجہ سے سفرکرنے کودلالۃ وطن ختم کرنا،قراردیاگیاہے ۔

   بنایہ شرح ہدایہ میں ہے: " ثم لما أقيم حولان الحول مقام الاستنماء فبعد ذلك لم يعتبر حقيقة الاستنماء حتى إذا ظهر النماء أو لم يظهر يجب الزكاة كالسفر لما أقيم مقام المشقة لم يعتبر حينئذ وجود المشقة فكذلك هاهنا "ترجمہ:پھرجب حولان حول(سال گزرنے)کو اضافہ حاصل کرنے کے قائم مقام کردیا گیا، تو اس کے بعد حقیقتاً اضافہ حاصل کرنے کا اعتبار نہیں رہا،یہاں تک کہ جب سال گزرجائے ،اضافہ ہویا نہ ہو زکوٰۃ لازم ہو جائے گی جیسے سفرکو جب مشقت کے قائم مقام کردیاگیا،تو اب مشقت کے پائے جانے کااعتبار نہیں ہے  پس اسی طرح یہاں بھی ہوگا۔(البنایۃ شرح الہدایۃ،کتاب الزکاۃ،جلد 04، صفحہ 09،مطبوعہ ملتان)

   مزید یوں بھی وضاحت ہوسکتی ہے کہ ہردفعہ کی اقامت میں انسان کی حاجت ایک نئی حاجت ہوگی ،جب ایک دفعہ اقامت کرنے کے بعدوہ سفرکرے گا،تویہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ پہلی حاجت اس کی مکمل ہوچکی ہے ۔اب نئی حاجت تب متحقق ہوگی، جب وہ دوبارہ وہاں پرپندرہ دن یااس سے زائداقامت اختیارکرے۔

   (3) طالب علم ہو  یا ملازم جب اس نے ایک دفعہ  اپنی جائے اقامت  کو وطن اقامت بنالیا، تو وہ اس وقت تک وطن اقامت رہے گا،جب تک اوپرذکرکردہ تین شرطوں میں سے کوئی بھی نہ پائی جائے، لیکن اگران میں سے کوئی ایک پائی گئی یعنی سفرشرعی کرلیایا وطن اصلی چلاگیا یا دوسرا وطن اقامت بنالیا،توپہلاوطن اقامت باطل ہوجائے گا،اگرچہ وہاں پراس کاسامان وغیرہ بھی موجود ہو،اب جب دوبارہ اس مقام پرپہنچے گا،توپندرہ دن یااس سے زائدرہنے کی نیت کرے گا،تو ہی دوبارہ وطن اقامت ہوگاورنہ نہیں ہوسکے گااورمسافت شرعی پائی  گئی تونمازمیں قصر ہی کرے گا۔ جیسے فتاویٰ رضویہ میں ہے:"جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے، نہ وہاں اس نے شادی کی، نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا، بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجت اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام ایک وجہ خاص سے ہے نہ مستقل ومستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا جب تک ۱۵ دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا کہ وطن اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے۔")فتاوی رضویہ،جلد 08،صفحہ 271،مطبوعہ رضافاونڈیشن،لاہور(

   (4)جب وہ طالب علم شرعی مسافت طے کرکے اس مدرسہ میں  صرف تعلیم کی غرض سے عارضی طور پر آیا اور پندرہ یااس سے زائددن رہنے کی نیت نہیں تھی، تواس پرچاررکعتی فرض نمازکوقصرپڑھنالازم تھا ،لہٰذااس صورت میں اس نےجتنی چار رکعتی فرض نمازیں قصرنمازیں پڑھیں وہ درست ہوئیں اورقصرپڑھانے کے حوالے سے یہ تفصیل ہے کہ جن کوپڑھائی اگروہ بھی مسافرتھے،تویہ بھی ٹھیک ہے اوراگرپڑھنے والے سارے یابعض مقیم تھے اور اس نے قصر پڑھ کر سلام پھیردیا ،مقیم نمازیوں نے بقیہ اپنی  رکعتیں شرعی طریقے پر مکمل کیں،تو وہ بھی

درست ہوگئیں ۔ اور اگرمقیم نمازیوں نے دو پر ہی سلام پھیردیا تو ان کی نماز نہیں ہوئی ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم