Watan Iqamat Sirf Safar Ki Niyat Se Nahi Balke Bil Fail Safar Karne Se Batil Hota Hai ?

وطن اقامت، محض نیت ِ سفر سے نہیں، بلکہ بالفعل سفر سے باطل ہوتا ہے

مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:114

تاریخ اجراء: 09 صفرا لمظفر 1434ھ/23دسمبر 2012ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید حیدرآباد سے کراچی بیس دن کے لیے آیا ، بارہویں دن اس کو معلوم ہوا کہ کل چھٹی ہے، لہٰذا اس نے ارادہ کرلیا  کہ کل واپس حیدرآباد چلا جاؤں گا۔ اب بارہویں دن جب سے واپسی کی نیت کی ہے تب سے لے کر تیرہویں دن واپس جانے تک یہ نماز قصر پڑھے گا یا پوری؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں چونکہ زید کی نیت کراچی میں بیس دن ٹھہرنے کی تھی، لہٰذا کراچی اس کا وطن اقامت ہے اور یہ کراچی میں مقیم، اور جب کوئی جگہ وطن اقامت بن جائے، تو اس وطن اقامت کے باطل ہونے کی فقہاء نے تین صورتیں لکھی ہیں:(1)وطن اصلی میں واپس آجانا (2)کسی دوسری جگہ کو وطن اقامت بنالینا (3)وطن اقامت سے سفر کرجانا۔

   چنانچہ حضرت علامہ ابوبکر بن مسعود کاسانی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں: ’’وطن الاقامۃ ینتقض بالوطن الاصلی و بوطن الاقامۃ ایضاًو ینتقض بالسفر ایضاً۔ ملخصاً‘‘ ترجمہ: وطن اقامت وطن اصلی سے باطل ہوجاتا ہے اور کسی دوسری جگہ کو وطن اقامت بنانے سے بھی باطل ہوجاتا ہے اور سفر کرنے سے بھی باطل ہوجاتا ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 498، مطبوعہ کوئٹہ)

      اور یہاں مذکورہ تینوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں پائی جارہی، کیونکہ ابھی تک نہ تو زید اپنے وطن اصلی واپس لوٹا ہے اور نہ ہی اس نے کسی اور جگہ کو وطن اقامت بنایا ہے اور نہ ہی یہاں سے اس نے سفر شروع کیا ہے، بلکہ صرف سفر کرنے کی نیت کی ہے اور مذکورہ جزئیہ میں سفر سے مراد محض نیت ِ سفر نہیں، بلکہ بالفعل سفر کرنا، مراد ہے، کیونکہ نیت جب تک فعل سے ملی ہوئی نہ ہو، اس وقت تک اس نیت کا اعتبار نہیں ، جیساکہ اگر کوئی شخص اپنے وطن اصلی میں رہتے ہوئے مسافت ِ سفر تک کسی مقام پر جانے کی نیت کرے، لیکن بالفعل سفر نہ کرے تو محض نیت کرلینے سے وہ مسافر نہیں ہوجائے گا،کیونکہ نیت کے معتبر ہونے کے لئے اس کافعل سے ملا ہوا ہونا ضروری ہے اور فعل اس وقت تک متحقق نہیں ہوگا، جب تک وہ نیت ِسفر کے ساتھ اپنے شہر کی آبادی سے باہر نہ ہوجائے۔

   حضرت علامہ ابوبکر بن مسعود کاسانی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں: ’’ لا یصیر مسافراً بمجرد نیۃ مدۃ السفر ما لم یخرج من عمران المصر ۔۔۔لأن النیۃ انما تعتبر اذا کانت مقارنۃ للفعل، لأن مجرد العزم عفو، و فعل السفر لا یتحقق الا بعد الخروج من المصر فما لم یخرج لا یتحقق قران النیۃ بالفعل فلا یصیر مسافراً و ھذا بخلاف المسافر اذا نوی الاقامۃ فی موضع صالح للاقامۃ حیث یصیر مقیماً للحال، لأن نیۃ الاقامۃ ھناک قارنت الفعل وھو ترک السفر، لأن ترک فعل فعل فکانت معتبرۃ ‘ ترجمہ:کوئی شخص محض مسافت ِ سفر تک جانے کی نیت کرلینے سے مسافر نہیں ہوگا جب تک وہ شہر کی آبادی سے نہ نکل جائے، کیونکہ نیت اسی وقت معتبر ہوگی جب وہ فعل سے ملی ہوئی ہو  کہ محض عزم تو معاف ہے اور فعلِ سفر شہر سے نکلے بغیر متحقق نہیں ہوتا، تو جب تک یہ شہر سے نہ نکلے نیت کا فعل سے ملا ہو اہونا نہیں پایا جائے گا، لہٰذا یہ مسافر نہیں ہوگا، بخلاف مسافر کے کہ جب وہ ایسی جگہ پہنچ کر اقامت کی نیت کرلےجو اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو، تو یہ فوراً مقیم ہوجائے گا ، کیونکہ نیت ِاقامت یہاں فعل سے ملی ہوئی ہے اور وہ فعل ترکِ سفر، کیونکہ ترکِ فعل بھی ایک فعل ہی ہے ،لہٰذا یہاں نیت معتبر ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 476، مطبوعہ کوئٹہ)

   امام برہان الدین محمود بن صدرالشریعہ ابن مازہ بخاری علیہ رحمۃ اللہ الباری اسی مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی نظیرلکھتے ہیں: ’’و نظیر ھذا ما قال فی کتاب الزکاۃ: من کان لہ عبد للخدمۃ، فنوی أن یکون للتجارۃ لم یکن للتجارۃ حتی یبیعہ، و ان کان للتجارۃ، و نوی أن یکون للخدمۃ، خرج من التجارۃ بالنیۃ‘‘ ترجمہ : اس مسئلے کی نظیر کتاب الزکوٰۃ میں بیان کیا گیا یہ مسئلہ ہے کہ جس کے پاس خدمت کا غلام ہو اور وہ اس کی تجارت کی نیت کرلے، تو یہ اس وقت تک مالِ تجارت نہیں ہوگا جب تک یہ اسے بیچ نہ دے اور اگر وہ غلام تجارت کے لئے خریدا تھا اور اس سے خدمت کی نیت کرلی، تو وہ صرف نیت کرنے سے ہی مالِ تجارت سے خارج ہوجائے گا۔ (محیط برھانی، جلد 2، صفحہ 387، مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی لبنان)بالکل اسی طرح سوال میں ذکر کی گئی صورت میں بھی زید نے اگلے دن حیدرآباد واپس جانے کی صرف نیت کی ہے بالفعل سفر شروع نہیں کیا، لہٰذا یہ نیت اس وقت تک کارآمد نہیں جب تک وہ سفر کرکے کراچی کی آبادی سے باہر نہ نکل جائے۔

   لہٰذا پوچھی گئی صورت میں زید حیدرآباد واپس جانے کی محض نیت کرلینے سے مسافر نہیں ہو گا، بلکہ یہ مقیم ہی رہے گا اور یہ جب تک کراچی میں رہے گا پوری نماز پڑھے گا،ہاں جب کراچی سے حیدرآباد روانہ ہوگا، تو کراچی کی آبادی سے باہر نکلتے ہی حیدرآباد کی آبادی میں داخل ہونے  تک دورانِ سفر قصرنماز پڑھے گا۔

    جیساکہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی بارگاہ میں سوال کیا گیا کہ زید اپنے وطن سے ستر یا اسی کوس کے فاصلے پر کسی شہر میں ملازم ہے، وہاں سے سال دو سال کے بعد آٹھ دس روز کے واسطے اپنے مکان پر آیا اور پھر چلا گیا اس آمدورفت میں اس کو نماز قصر پڑھنی چاہیے یا نہیں؟جواباً آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب وہاں سے بقصدِ وطن چلے اور وہاں کی آبادی سے باہر نکل آئے اس وقت سے جب تک اپنے شہر کی آبادی میں داخل نہ ہو قصر کرے گا۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد8، ص258، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم