Zuhr Maghrib Aur Isha Ke Farz Ke Baad 4 Rakat Ek Salam Se Parhna

ظہر، مغرب اور عشاء کے فرض کے بعد 4 رکعات ایک سلام سے ادا کرنے پر سنت و نفل کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12338

تاریخ اجراء: 07محرم الحرام 1444 ھ/06اگست 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ظہر کے فرض کے بعد والی دو سنتوں کو پڑھتے ہوئےنمازی قعدہ اخیرہ کے بعد سلام پھیرنے کے بجائے بھولے سے کھڑا ہوجائے اور یاد آنے پر مزید دو رکعت ملا کر آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرے، تو کیا اس صورت میں انہی چار رکعات سے اس کی سنتِ مؤکدہ اور نفل نماز ادا ہوجائے گی؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی شخص ظہر، مغرب اور عشاء کے فرائض کے بعد چار رکعات ایک ہی سلام سے ادا کرلے ،تو مختار قول کے مطابق انہیں چار رکعات سے اس کی سنتیں اور نوافل ادا ہوجائیں گے، لہذا صورتِ مسئولہ  میں انہی  چار رکعات سے سنتِ مؤکدہ اور نفل نماز دونوں ادا ہوجائیں گی۔

   ایک ہی سلام سے سنتِ مؤکدہ اور نوافل ادا ہونے کے حوالے سے درِ مختار میں ہے:”هل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدى الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم“یعنی مستحب رکعتیں ادا کرتے ہوئے مؤکدہ بھی شمار ہوں گی؟ جبکہ ایک ہی سلام کے ساتھ تمام رکعتیں ادا کی جائیں ۔ علامہ کمال ابن ہمام علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہاں۔

    (اختار الكمال) کے تحت رد المحتار میں ہے:” ذكر الكمال في فتح القدير أنه وقع اختلاف بين أهل عصره في أن الاربع المستحبة هل هي أربع مستقلة غير ركعتي الراتبة أو أربع بهما؟ وعلى الثاني هل تؤدى معهما بتسليمة واحدة أو لا، فقال جماعة: لا، واختار هو أنه إذا صلى أربعا بتسليمة أو تسليمتين وقع عن السنة والمندوب، وحقق ذلك بما لا مزيد عليه، وأقره في شرح المنية والبحر والنهر“ترجمہ: علامہ ابنِ ہمام علیہ الرحمۃ نے فتح القدیر میں اس بات کا ذکر فرمایا کہ ان کے زمانے میں علماء  کا اختلاف ہوا (کہ ظہر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد )جو چار رکعات مستحب ہیں، کیایہ بغیر سنتِ مؤکدہ کےالگ سے مستقل چار رکعات ہیں یا پھر سنتِ مؤکدہ کو ملانے کے ساتھ چار رکعات مستحب ہیں؟ پھر دوسری صورت میں کیا یہ دو سنتِ مؤکدہ ایک ہی سلام کے ساتھ بھی ادا ہوجائیں گی یا نہیں؟ تو علماء کی ایک جماعت نے  کہا کہ ایک ہی سلام سے یہ دو سنتِ مؤکدہ ادا نہ ہوں گی، البتہ صاحبِ فتح القدیر نے اس بات کو اختیار فرمایا کہ نمازی اگر ان نمازوں کے بعد ایک ہی سلام سے یا پھر دو سلاموں سے چار رکعات نماز ادا کرے ،تو یہی چار رکعات سنت اور مستحب نمازکی طرف سے ادا ہوجائیں  گی، صاحبِ فتح القدیر نے مسئلہ  کی اس انداز سے تحقیق کی کہ مزید گنجائش باقی نہیں، اور اسی بات کو"شرح منیہ"، "بحر "اور" نہر "میں برقرار رکھا۔“   (رد المحتارمع در المختار، کتاب الصلوٰۃ، ج 02، ص 547 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”ظہر و مغرب و عشا کے بعد جو مستحب ہے ،اس میں سنت مؤکدہ داخل ہے، مثلاً:ظہر کے بعد چار پڑھیں تو مؤکدہ و مستحب دونوں ادا ہوگئیں اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ مؤکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔“(بھارِ شریعت، ج 01، ص 667، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ”زید نے فرضِ عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی نیت کی، بجائے سلام پھیرنے کے کھڑا ہوگیا یہ خیال کرکے کہ دو رکعات نفل اور پڑھنا ہے ،وہ بھی اس میں شامل ہوجائے گی ،ایسی حالت میں نماز سنت و نفل دونوں ہوئیں یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”بہتر یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیردے اگر سلام نہ پھیرا اور دو رکعتیں اور ملالیں جب بھی نماز ہوگئی یعنی سنتِ مؤکدہ اور نفل دونوں ادا ہوگئی۔ ملخصاً(فتاوٰی امجدیہ،ج01،ص234، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم