وراثت میں ملنے والی زمین کی وجہ سے قربانی لازم ہوگی یا نہیں ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1854

تاریخ اجراء:26 ذوالقعدۃ الحرام1441ھ/18جولائی2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں جب کسی کا والد فوت ہو جائے اور وراثت میں ایسی زمین چھوڑے جو اس نے اپنی اولاد کے نام نہ کی ہو ، تو ورثا اس زمین کو مل کر استعمال کرتے اور اسی کی فصل کھاتے ہیں ، جبکہ ان کی گزر بسر اس زمین پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ ان کا ذریعۂ آمدنی اس کے علاوہ ہوتا ہے ، لیکن وہ قربانی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ والد صاحب نے زمین ہمارے نام نہیں کی تھی ، اس لیے ہم صاحبِ نصاب نہیں ہیں اور ہم پر قربانی لازم نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کی گزر اوقات اس زمین پر منحصر نہ ہو اور ان کے پاس اس زمین کے علاوہ ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر حاجتِ اصلیہ سے زائد مال بھی نہ ہو ، لیکن ان کا اس زمین میں بننے والا حصہ ان کی حاجتِ اصلیہ سے زائد اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو ،تو اس زمین کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہو گی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں ان ورثا پر قربانی واجب ہو گی ۔اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے مالِ وراثت ، مالِ شرکت ہوتا ہے اور مالِ شرکت میں جس شریک کا اس کی حاجتِ اصلیہ (یعنی جن چیزوں کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہوتا ہے ، جیسے رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے ، کھانے کے لیے غلہ ، ضرورت کی سواری ، گھریلو استعمال کا ضروری سامان ، علمی مشاغل والے کے لیے دینی کتابیں جو اس کی ضرورت سے زیادہ نہ ہوں ، پیشہ ور افراد کے لئے کام کاج کے اوزار وغیرہ) سے زائد حصہ تنہا یا اس کے دیگر حاجتِ اصلیہ سے زائد مال و سامان کے ساتھ مل کر قربانی کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو ، اس پر قربانی واجب ہوتی ہے اور بیٹوں کا یہ سمجھنا کہ چونکہ والد نے زمین ہمارے نام نہیں کی تھی ، اس لیے ہم پر قربانی لازم نہیں ہے ، یہ خیال  درست نہیں ، کیونکہ وراثت شریعت کی طرف سے مقرر کردہ جبری و لازمی حق ہے جس میں مورث (یعنی اصل مالک) کے فوت ہوتے ہی وارث کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے ، اس کے لیے ترکے کا قانونی طور پر وارث کے نام ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔

قربانی واجب ہونے کے نصاب کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے : ” فلا بد من اعتبار الغنٰى وهو أن يكون فی ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شئ تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و ما لا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر “ترجمہ :(قربانی کے وجوب کے لیے)مال داری کا اعتبار ضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یا اس کی رہائش کے مکان ،خانہ داری کے سامان، کپڑے،خادم،گھوڑا،ہتھیاراوروہ چیزیں جن کے بغیرگزارا نہ ہو ، کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو ، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہی صدقۂ فطرکانصاب ہے۔

(بدائع الصنائع ، کتاب التضحیۃ ، ج4 ، ص196 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    مالِ وراثت کے مالِ شرکت ہونے کے متعلق رد المحتار میں ہے : ”یقع کثیرا من الفلّاحین و نحوھم ان احدھم یموت فتقوم اولادہ علی ترکتہ بلا قسمۃ و یعملون فیھا من حرث و زراعۃ و بیع و شراء و استدانۃ و نحو ذلک

ھی شرکۃ ملک کما حررتہ فی تنقیح الحامدیۃ ، ثم رأیت التصریح بہ بعینہ فی فتاوی الحانوتی ، ملخصا “ترجمہ : کسانوں وغیرہ میں کثرت سے ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک فوت ہوتا ہے تو اس کی اولاد اس کا ترکہ تقسیم کیے بغیر اسے استعمال کرتی ہے اور وہ اس میں کاشت ، کھیتی باڑی ، خرید و فروخت ، قرض کا لین دین اور اسی طرح کے دیگر کام کرتے ہیں ، یہ (یعنی مالِ وراثت میں ان کی شرکت) شرکتِ ملک ہے ، جیسا کہ میں نے اسے تنقیح الحامدیہ میں تحریر کیا ہے ، پھر میں نے فتاوی حانوتی میں اس کی بعینہٖ صراحت دیکھی ۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الشرکۃ ، مطلب فیما یقع کثیرا فی الفلاحین الخ ، ج6 ، ص472 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مالِ وراثت کے مالِ شرکت ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:”اکثر ورثاء میں معمول ہوتا ہے کہ مورث مر گیا ، اس کے مال دیہات ، دکانات یوں ہی شرکت پر بلا تقسیم رہتے ہیں اور منجملۂ ورثہ بعض وارث باقیوں کے اجازت و رضا مندی سے ان میں تصرف کرتے ہیں ، شرکتِ عقد نہیں ، شرکتِ ملک ہی ہے ۔ “

( فتاوٰی رضویہ ، ج16 ، ص107 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مالِ شرکت میں قربانی کے متعلق فرماتے ہیں : ”مالِ شرکت میں جس کا حصہ بقدرِ نصاب نہ ہو ،نہ اس کے پاس اپنا اور کوئی خاص مال اتنا ہو کہ حصہ کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے ، اس پر قربانی واجب نہیں یعنی نہ کرے گا تو گنہگار نہ ہو گا ۔ “

                                    ( فتاوٰی رضویہ ، ج20 ، ص372 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایامِ قربانی میں اپنی تمام اصلی حاجتوں کے علاوہ 56 روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے دور میں رائج چاندی کا نصاب) کے مال کا مالک ہو ، چاہے وہ (یعنی اصلی حاجتوں کے علاوہ) مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت ۔ کاشتکار کے ہَل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔ “

(فتاوٰی رضویہ ، ج20 ، ص370  ، مطبوعہ رضافاونڈیشن ، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مورث کے فوت ہوتے ہی مالِ وراثت میں وارث کی ملکیت ثابت ہو جانے کے متعلق فرماتے ہیں : ”ارث جبری ہے کہ موتِ مورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصۂ شرعی کامالک ہوتا ہے ، مانگے خواہ نہ مانگے ، لے یا نہ لے ، دینے کاعرف ہویا نہ ہو ، اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے ، کتنے ہی اشتراک در اشتراک کی نوبت آئے ، اصلاً کوئی بات میراثِ ثابت کو ساقط نہ کرے گی ، نہ کوئی عرف فرائض اللہ  کو تغیر کر سکتا ہے ، یہاں تک کہ نہ مانگنا در کنار ، اگر وارث صراحۃً کہدے کہ میں نے اپنا حصہ چھوڑ دیا ، جب بھی اس کی ملک زائل نہ ہو گی ۔ “

      ( فتاوٰی رضویہ ، ج26 ، ص113 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم