جس جانورکے سینگ نکال دئے گئے اس کی قربانی کا حکم          

مجیب: مولانا  محمد سجاد  عطاری مدنی زید مجدہ

فتوی نمبر: Web:43

تاریخ اجراء: 15 جمادی الاولی 1442 ھ/31 دسمبر 2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیل کے سینگ خوبصورتی کے لیے جڑ سے نکال دیئے جاتے ہیں اور کچھ عرصے میں زخم صحیح ہو جاتا ہے کیاایسے بیل کی قربانی جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صورت مسؤلہ میں ایسے جانور کی قربانی جائز ہے۔تفصیل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ جس جانور کا سینگ ٹوٹ گیا ہو، اگر سرکے اوپر والا حصّہ ٹوٹا ہوجو ظاہر ہوتا ہے تو قربانی جائز ہے اور اگرسینگ سر کے اندر جَڑ تک ٹوٹے یا جڑسے نکال دیے گئے تو اس صورت میں  اگر سر کازخم ٹھیک ہوجائے جیساکہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے تو اس   کی قربانی جائز ہےکیونکہ سینگ کا ٹوٹنا اس وقت عیب شمار ہوتا ہے ، جبکہ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھی ٹھیک نہ ہوا ہوتو  اس عیب کے پائے جانے کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہوتی۔

      اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک مسئلے کے جواب میں فرماتے ہیں :’’سینگ ٹوٹنا اس وقت قربانی سے مانع ہوتاہے جبکہ سر کے اندر جڑ تک ٹوٹے ، اگر اوپر کا حصہ ٹوٹ جائے تو مانع نہیں۔ فی ردالمحتار ” یضحی بالجماء وھی التی لا قرن لها خلقۃ وکذا العظماء التی ذھب بعض قرنها بالکسر اوغیرہ۔ فان بلغ الکسر الی المخ لم یجز قهستانی،و فی البدائع ان بلغ الکسر المشاش لایجزئی والمشاش   رؤس      العظام   مثل    الرکبتین والمرفقین ردالمحتار میں ہے جماء کی قربانی جائز ہے، یہ وہ ہے کہ جس کے سینگ پیدائشی نہ ہو اور یوں عظماء  بھی، یہ وہ ہے کہ جس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹا ہواورمخ تک ٹوٹ چکا ہو ،تو ناجائز ہے۔ قہستانی اور بدائع میں ہے اگر یہ ٹوٹ مشاش تک ہو ،تو ناجائز ہے اور مشاش ہڈی کے سرے کو کہتے ہیں جیسے گھٹنے اورکہنیاں او ر  پھر اگر ایسا ہی ٹوٹا تھا کہ مانع ہوتا ،مگر اب زخم بھر گیا، عیب جاتا رہا تو حرج نہیں لان المانع قد زال وھذا ظاھر کیونکہ مانع جاتا رہااور یہ ظاہرہے۔ (فتاوی رضویہ جلد 20،صفحہ 460، رضا فاؤنڈیشن لاهور)

     یاد رہے ! احادیث طیبہ میں  جانوروں  کے ساتھ حسن سلوک   کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہےاور ان پر   ظلم کرنے، بلاوجہ تکلیف دینے یا زخمی کرنے سے منع  کیا گیا ہے۔ایسا کرنے والوں  کے  متعلق نہ صرف    وعیدات بیان کی گئیں بلکہ  جانوروں پر  ظلم و ستم کو   عذاب  کی وجہ بیان کیاگیا ہے لہذا    بلاوجہ جانورں کے سینگ  نکالنے کے  لیے انہیں زخمی کرکے  تکلیف میں مبتلا نہ کیا جائے اگرچہ  وہ بول نہیں سکتے  البتہ تکلیف وہ بھی محسوس کرتے ہیں۔

     بخاری شریف میں ہے :’’عن ابن عمر عن النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ،قال: دخلت امرأۃ النار فی ھرۃ ربطتھا فلم تطعمھا ولم تدعھا تاکل من خشاش الارض‘‘یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک عورت ایک بلی  کے سبب دوزخ میں گئی اس نے بلی کو باندھ رکھاتھا ، نہ اسے کھانادیانہ چھوڑاکہ زمین کےکیڑے مکوڑے  چوہے وغیرہ کھالیتی۔‘‘

(صحیح البخاری ،  باب خمس من الدواب فواسق الخ ،جلد1،صفحہ 467،مطبوعہ کراچی)

     اس حدیث مبارکہ کے  تحت   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مراۃ المناجیح  میں    فرماتے ہیں :’’اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ پالے ہوئے جانور کا بھی حق ہے کہ اسے کھانا پانی دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جانوروں پر ظلم بھی گناہ ہے۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ جانور پر ظلم انسان کے ظلم سے بدتر ہے کیونکہ انسان زبان والا ہے اپنے دکھ دوسروں سے کہہ سکتا ہے بے زبان جانور خدا کے سوا کس سے کہے۔‘‘

(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،جلد 3،صفحہ 129،مطبوعہ لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم