گائے،بیل یا اونٹ میں سات حصے ہونا ضروری ہے یا کم بھی ہو سکتے ہیں ؟

مجیب:مولانا نوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:  Pin-1392

تاریخ اجراء:08ذوالقعدۃ الحرام1432ھ/05نومبر2011ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک بیل یا گائے میں سات حصے داروں سے کم یعنی تین،چار، پانچ یا چھ حصے دار بھی شامل ہو سکتےہیں ياسات حصے دار ہونا ہی لازم ہے؟وضاحت فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بڑے جانور یعنی گائے، بیل یا اونٹ کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں اوراس سے کم میں کوئی تعداد مقرر نہیں ، لہذا سات شرکاء سے کم جتنے بھی ہوں ،وہ اس میں شریک ہو سکتے ہیں ، کیونکہ ایسا جانور جس میں سات شرکاء کی شرعا اجازت ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو ۔ اگربعض شریکوں کا حصہ ساتواں اور دوسرے بعض کا ساتویں سے زیادہ ہے ،تو یہ جائز ہے، اسی طرح اگر سب شریکوں کا حصہ ساتویں سے زیادہ ہے، تو بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا،ہاں البتہ اگر ساتویں سے کم حصہ کسی کا ہو، افراد سات ہوں یا کم تو اس صورت میں کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔

    در مختار میں ہے:”تجب شاۃ أو سبع بدنۃ ھی الإبل و البقر، و لو لأحدھم أقل من سبع لم یجز عن أحد، و تجزی عما دون سبعۃ بالأولی“ ترجمہ : ایک بکری یا بڑے جانور جیسے اونٹ اور گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کا ساتویں حصے سے کم ہو ،تو کسی ایک کی طرف سے بھی جائز نہیں ہو گی اور اگر شریک سات سے کم ہیں، تو قربانی بدرجہ ٔ اولیٰ جائز ہے۔

(در مختار مع رد المحتار، جلد9،صفحہ524،525 ،مطبوعہ  کوئٹہ)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی امجدی علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’جب قربانی کی  شرائط مذکور ہ پائی جائیں تو بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ یاگائے کا ساتواں حصہ واجب ہے ،ساتویں حصہ سے کم نہیں ہو سکتا، بلکہ اونٹ یا گائے کے شرکاء میں اگر کسی شریک کا ساتویں حصہ سے کم ہے، تو کسی کی قربانی نہیں ہوئی، یعنی جس کا ساتواں حصہ یا ا س سے زیادہ ہے اس کی بھی قربانی نہیں ہوئی ،گائے یا اونٹ میں ساتویں حصہ سے زیادہ کی قربانی ہو سکتی ہے، مثلا:گائے کو چھ یا پانچ یا چار شخصوں کی طرف سے قربانی کریں ،ہو سکتا ہے اور یہ ضرورنہیں کہ سب شرکاء کے حصے برابر ہوں ، بلکہ کم و بیش بھی ہوسکتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ جس کا حصہ کم ہے، تو ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔“

(بھار شریعت ،جلد3 ،حصہ15، صفحہ335،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم