کس جانور کی قربانی افضل ہے؟

مجیب:مولانا سرفراز اختر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5007

تاریخ اجراء:20 ربیع الثانی1442ھ/06دسمبر2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کس جانور کی قربانی افضل ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جانور  میں افضل  ہونے کے اسباب تین ہیں ۔(1)گوشت زیادہ ہونا۔(2) قیمت زیادہ ہونا۔(3)گوشت کا اطیب (اچھا) ہونا۔

    ان اسباب میں قوت کے اعتبار سے بھی یہی ترتیب ہے یعنی جس جانور کا گوشت زیادہ ہوگا،وہ معتمد  و مختار قول کے مطابق کم گوشت والے سے مطلقا افضل ہے ،چاہے کم گوشت والا قیمت اور اطیب ہونے میں زیادہ ہو۔جیسے اونٹ گائے سے افضل ہے۔گائے بکری،مینڈھے وغیرہ سے افضل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گوشت زیادہ ہونے میں تقسیم میں وسعت ہوگی اور اس طرح فقراء کا نفع زیادہ ہوگا۔زیادہ گوشت والے کی ترجیح پر دلیل نیچے فتاوی قاضی خان سے بکری اور بدنہ کے متعلق مذکور جزئیہ ہے۔

    دوسرے درجے کی ترجیح قیمت زیادہ ہونا ہے یعنی اگر گوشت کی مقدار برابر ہو تو اب قیمت کی طرف دیکھا جائے گا ،جس کی قیمت زیادہ ہو، اس کو ترجیح دی جائے گی اگرچہ دوسرا اس سے اطیب ہو۔جیسا کہ نیچے تتارخانیہ کے جزئیہ میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق فحل اور خصی گوشت میں برابر ہیں مگر فحل کے قیمت میں زائد ہونے کی وجہ سے اسے خصی پر اس کے گوشت کے اچھے ہونے کے باوجود  ترجیح دی گئی۔

    تیسرے درجے کی ترجیح گوشت کا اطیب ہونا ہے یعنی گوشت کی مقدار اور قیمت برابر ہو تو اب اطیب ہونے کے اعتبار سے ترجیح دی جائے گی۔جیسے اونٹ اور گائے کے نرو مادہ میں سے مادہ کی قربانی کو نر  کی قربانی سے ترجیح  گوشت کے اطیب ہونے کے اعتبار سے ہے۔

    درمختارمیں ہے:’’الشاۃ افضل من سبع البقرۃ اذا استویا فی القیمۃ واللحم ،والکبش افضل من النعجۃ اذا استویا فیھما،والانثی من المعز افضل من التیس اذا استویا قیمۃ،والانثی من الابل والبقرۃ افضل ،حاوی،وفی الوھبانیۃ ان الانثی افضل من الذکر اذا استویا قیمۃ‘‘بکری گائے کےساتویں حصہ سے   افضل ہے،جبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابر  ہوں اور مینڈھا،بھیڑ سےافضل ہےجبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابرہوں،اوربکری بکرےسے افضل ہےجبکہ دونوں قیمت میں برابر ہوں،اوراونٹنی اورگائے (اونٹ اور بیل سے)افضل ہیں،حاوی،اوروہبانیہ میں ہےکہ مادہ نرسے افضل ہےجبکہ دونوں قیمت میں برابر ہوں۔

(درمختار مع رد المحتار،ج9،ص534،مطبوعہ کوئٹہ)

    ردالمحتار میں ہے:’’قولہ:(اذا استویا الخ)فان کان سبع البقرۃ اکثر لحما فھوافضل،والاصل فی ھذا اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبھما لحما افضل،واذا اختلفافیھما فالفاضل اولی۔تاترخانیۃ‘‘پس اگرگائے کاساتواں حصہ زیادہ گوشت والاہو تووہ ہی افضل ہے،اوراس بارے میں قاعدہ یہ ہےکہ جب دونوں جانورگوشت اورقیمت میں برابرہوں توان میں عمدہ گوشت والاافضل ہے،اوراگرگوشت اورقیمت میں برابرنہ ہوں توخوبی میں زائد بہترہے۔

   ( رد المحتار مع الدرالمختار،ج9،ص534،مطبوعہ کوئٹہ)

    رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(اذا استویا فیھما)فان کانت النعجۃ اکثر قیمۃ اولحما فھی افضل۔ذخیرۃ ۔ط‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(جب دونوں گوشت و قیمت میں برابر  ہوں)تواگربھیڑ گوشت یاقیمت میں زیادہ ہوتووہی افضل ہے۔ذخیرۃ۔طحطاوی۔

(رد المحتار مع الدرالمختار ،ج9،ص534،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:’’بکری کی قیمت اور گوشت اگر گائے کے ساتویں حصہ کے برابر ہو تو بکری افضل ہےاور گائے کے ساتویں حصہ میں بکری سے زیادہ گوشت ہو تو گائے افضل ہے یعنی جب دونوں کی ایک ہی قیمت ہو اور مقدار بھی ایک ہی ہو تو جس کا گوشت اچھا ہو وہ افضل ہے اور اگر گوشت کی مقدار میں فرق ہو تو جس میں گوشت زیادہ ہو وہ افضل ہے اور مینڈھا بھیڑ سے اور دنبہ دنبی سے افضل ہے جبکہ دونوں کی ایک قیمت ہو اور دونوں میں گوشت برابر ہو۔بکری بکرے سے افضل ہے مگر خصی بکرا بکری سے افضل ہے اور اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہوں۔‘‘

         (بھار شریعت،ج3،ص340، مکتبۃ المدینہ کراچی)

شرح وہبانیہ میں ہے :"وجہ کون السبع اولی اذا کان اغلی و اکثر لحما فانہ متی کان اکثر منھا ثمنا کان اکثر لحما و متی کان اکثر لحما کان انفع للفقراء واوسع والتوسعۃ فی ذلک الیوم مندوب الیھا۔‘‘ساتواں حصہ جب زیادہ قیمت اور زیادہ گوشت والا ہو تو اس کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ زیادہ قیمت والا ہوگا تو زیادہ گوشت والا ہوگا اور جب وہ زیادہ گوشت والا ہوگا تو فقراء کے لئے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ وسعت والا ہوگا اور اس دن وسعت مستحب ہے۔

 (شرح وھبانیہ،ص232، مخطوط)

    فتاوی قاضی خان میں ہے:’’قال بعضھم:اذا کان قیمۃ الشاۃ اکثر من قیمۃ البدنۃ فالشاۃ افضل لان الشاۃ کلھا تکون فرضاً و البدنۃ سبعھا یکون فرضاً،والباقی یکون نفلاً و ما  کان کلھا فرضاً کان افضل۔وقال الشیخ الامام الجلیل ابو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللہ تعالی:البدنۃتکون افضل لانھا اکثر لحماً من الشاۃو ما قالو:بان البدنۃ یکون بعضھا نفلاً فلیس کذلک بل اذا ذبحت عن واحد کان کلھا فرضاً۔و شبہ ھذا بالقراءۃ فی الصلاۃ لو اقتصر علی ما تجوز بہ الصلوۃ،جازت ولو زاد علیھا یکون الکل فرضا۔‘‘بعض فقہاء نے فرمایا:جب بکری کی قیمت بدنہ(گائے،اونٹ)سے زیادہ ہو تو بکری افضل ہے کیونکہ بکری  پوری کی پوری فرض کے طور پر ہوگی اور بدنہ کا ساتواں حصہ فرض کے طور پر ہوگا اور باقی نفل،اور جو چیز پوری فرض واقع ہو وہ زیادہ فضیلت والی ہوگی۔اور شیخ امام ِ جلیل ابو بکر محمد بن فضل رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:بدنہ افضل ہے کیونکہ وہ بکری سے گوشت کے اعتبار سے زائد ہوتا ہے،اور انہوں نے جو فرمایا:کہ اس کا بعض نفل ہوگا ،تو ایسا نہیں ہے بلکہ بدنہ جب ایک شخص کی طرف سے ذبح کیا جائے تو پورا ہی فرض کے طور پر ہوگا۔اور اس کوتشبیہ دی جائے گی نماز میں قراءت کے ساتھ کہ اگر نمازی نے اتنی مقدار پر اکتفاء کیا جس سے نماز جائز ہوجاتی ہے،تو یہ جائز ہےاور اگر اس مقدار سے زیادتی کی تو پوری قراءت فرض واقع ہوگی۔

 (فتاوی قاضی خان،ج3،ص235،مطبوعہ کوئٹہ)

    اسلوب سے ظاہر ہے کہ علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃکے نزدیک راجح و مختار دوسرا قول ہے کہ دوسرے قول کو آپ نے دلیل سے مزین کیا ہے اور یہ اعتماد و اختیار کی دلیل ہے اورجہاں ترجیح میں اختلاف ہو،علامہ قاضی خان علیہ الرحمہ کی ترجیح کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اوریہاں جب پہلے قول کی کوئی ترجیح موجود نہیں توضرور امام قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح پر عمل کیا جائے گا۔اس طرح یہ مسئلہ زائد گوشت والے کے مطلقاً افضل ہونے کی دلیل بنے گا کہ یہاں بکری کے قیمت اور اطیب ہونے میں زائد ہونے کے باوجود امام جلیل ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ نے بدنہ کو اس کے گوشت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے افضل قرار دیا۔اوپر مذکور بہار شریعت کے  یہ الفاظ‘‘  گوشت کی مقدارمیں فرق ہوتوجس میں گوشت زیادہ وہ افضل‘‘ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کہ ان میں بھی  مدار گوشت کے زائد ہونے پر رکھا گیا ہے،قیمت کا کوئی ذکر نہیں کیا  گیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیمت چاہے کم ہو یا زیادہ گوشت اگر زیادہ ہو تو اسی کو افضل قرار دیا جائے گا۔

    شرح عقود رسم المفتی میں  ہے:’’ لو ذکروا قولین مثلا وعللوا لاحدھما کان ترجیحا لہ علی غیر المعلل کما افادہ الخیر الرملی فی کتاب الغصب من فتاواہ الخیریۃ ونظیرہ مافی التحریر وشرحہ فی فصل الترجیح فی المتعارضین  ان الحکم الذی تعرض فیہ للعلۃ یترجح علی الحکم الذی لم یتعرض فیہ لھا لان ذکر علتہ یدل علی الاھتمام  بہ والحث علیہ ۔‘‘مثال کے طور پراگر فقہاء نے دوقول ذکرکئے ہوں اور ان میں سے ایک کی علت بیان کی  ہو تو اس کو، غیرمعلل(جس کی علت بیان نہیں کی گئی ) پر ترجیح حاصل ہوگی جیساکہ امام خیر الدین الرملی نے اپنے فتاوی خیریہ کی کتاب الغصب میں یہ فائدہ بیان کیا ہے اور اس کی نظیر وہ ہے جو تحریر اور شرح تحریر کی فصل الترجیح فی المتعارضین  میں ہےکہ وہ حکم جس کی علت بیان کی گئی ہو وہ راجح ہوتا ہے اس حکم پر جس کی علت بیان نہ کی گئی ہو کیونکہ اس کی علت کا ذکر اس کے اہم ہونے اور اس پر ابھارنے پر دلالت کرتا ہے۔

    ( شرح عقود رسم المفتی،ص 37،مطبوعہ لاھور)

    فتاوی تتارخانیہ میں ہے:’’والاصل فی ھذا انھما اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبھما لحما افضل،واذا اختلفافی اللحم والقیمۃ فالفاضل اولی۔اذا ثبت ھذا فنقول:الفحل بعشرین و ذلک قیمتہ افضل من خصی قیمتہ خمسۃ عشر و ان کان الخصی اطیب لحماً و ان استویا فی القیمۃ والفحل اکثر لحماً فالفحل افضل و کذا الکبش والنعجۃ اذا استویا فی القیمۃ واللحم فالکبش افضل و ان کانت النعجۃ اکثر قیمۃ او لحماً فھو افضل۔‘‘اوراس بارے میں قاعدہ یہ ہےکہ جب دونوں جانورگوشت اورقیمت میں برابرہوں توان میں عمدہ گوشت والاافضل ہے،اوراگرگوشت اورقیمت میں مختلف ہوں توخوبی میں زائد بہترہے۔جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم کہتے ہیں وہ   سانڈ جس کی قیمت بیس ہو   اس خصی سے افضل ہے جس کی قیمت پندرہ ہو اگرچہ خصی  گوشت کے اعتبار سے زیادہ عمدہ ہو تا ہے  اور  اگر  دونوں قیمت میں برابر ہوں   اور سانڈ گوشت کے اعتبار سے زیادہ ہو  تو سانڈ افضل ہے اور اسی طرح مینڈھا اوربھیڑ  جب دونوں قیمت    اور گوشت میں برابر ہوں   تو مینڈھا افضل ہے  اور  اور اگر بھیڑ  قیمت یا گوشت  کے اعتبار سے زیادہ ہو  تو یہی افضل ہے۔

 (تتارخانیہ،ج17،ص434،مطبوعہ کوئٹہ)

    تتارخانیہ کے مذکورہ بالا جزئیہ میں فحل و خصی کا گوشت میں برابر ہونا اگرچہ  صراحتاً مذکور نہیں،لیکن مصنف علیہ الرحمہ کی مراد اسی صورت کی ترجیح بیان کرنا ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں سے چونکہ مصنف علیہ الرحمہ" فاضل "کی صورت بیان کر رہے ہیں لہذا مصنف کی مراد یہ صورت ہرگز نہیں ہو سکتی کہ فحل قیمت میں تو زائد ہو مگرگوشت میں خصی سے کم ہو کہ اس صورت میں فحل" فاضل "نہیں ہوگا بلکہ خصی کو ترجیح ہوگی کہ گوشت میں زائد ہونے کے ساتھ ،گوشت کے اچھے ہونے والی خوبی بھی اس میں موجود ہے،لہذایہ صورت یہاں  مراد نہیں ہو سکتی۔پھر یہ کہ فاضل کے تحت یہاں دو صورتیں ممکن ہیں ۔(1)فحل قیمت میں زائد ہونے کے ساتھ گوشت میں بھی زائد ہو تو بھی فاضل ہونے کی وجہ سے ترجیح ہوگی۔(2)فحل قیمت میں تو زائد ہو مگر گوشت میں دونوں برابر ہوں تو اگرچہ خصی کا گوشت اچھا ہوتا ہے  تب بھی فحل کو ترجیح ہوگی۔مصنف علیہ الرحمہ کے کلام میں  اگر غور کیا جائے توان کے ان الفاظ’’و ان کان الخصی اطیب لحماً ‘‘سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی مراد اسی دوسری صورت کی ترجیح بیان کرنا ہے کہ تردد اسی میں ہے  کہ فحل اگرچہ قیمت میں زائد ہے مگر گوشت خصی کا اچھا ہے تو تردد ہو سکتا تھا کہ کس کو ترجیح دی جائے ؟ تویہ مسئلہ بیان کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ قیمت  یاگوشت  میں زائد ہونے والی خوبی گوشت اچھے ہونے والی خوبی سے برتر ہے، جبکہ پہلی صورت میں کسی قسم کا تردد نہیں کہ وہاں فحل قیمت کے ساتھ  ساتھ گوشت میں بھی زائد ہے،لہذا وہاں تو فحل کے افضل ہونے میں کوئی شک نہیں۔

    اشکال:اوپرجانوروں میں افضلیت کے لئے گوشت و قیمت  و اطیب ہونے کے اعتبار سے تفصیل کی گئی،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تقییدمطلقاً کسی بھی جانور کو قربانی کے اعتبار سے افضل نہیں کہا جا سکتا، حالانکہ مرقات میں اونٹ کو مطلقاً افضل قرار دیا گیا ہے،اس کے بعد گائے کو،پھر بکری کو پھر بھیڑ کو۔چنانچہ مرآۃ المناجیح میں ہے:’’مرقات نے یہاں فرمایا کہ افضل قربانی اونٹ کی ہے پھر گائے کی پھر بکری کی پھر بھیڑ کی۔‘‘

           (مرآۃ المناجیح،ج2،ص353،مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، لاھور)

    جواب:یہاں ان جانوروں کے حصے مراد نہیں ہیں  بلکہ پورے جانور کی دوسرے پورے جانور پر افضلیت کی بات ہے اور اس اعتبار سے عموماً اونٹ بقیہ تمام سے گوشت و قیمت میں چونکہ زیادہ ہوتا ہے،لہذا وہی افضل ہوگا ،یونہی پوری گائے بکری اور بھیڑ سے گوشت اور قیمت میں زائد ہوتی ہے لہذا وہی افضل ہوگی،یہ مطلب نہیں کہ اونٹ یا اس کا حصہ گائے یا اس کے حصے سے  گوشت و قیمت میں چاہے کم ہو تب بھی افضل ہے،و علی ھذا القیاس۔اس تفصیل پر دلیل یہ ہے کہ مرقات جیسی عبارت بعض دیگر فقہاء نے بھی تحریر فرمائی لیکن ساتھ ہی قیمت و گوشت والی تفصیل بھی بیان کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا حکم مطلق نہیں ہے بلکہ قیمت و گوشت والی تفصیل کے ساتھ مقید ہے۔

    محیط میں اونٹ کے افضل ہونے کے متعلق ہے:’’في أضاحي الزعفراني:البعير أفضل من البقر؛ لأنه أعظم۔‘‘ اونٹ گائےسے افضل ہے کیونکہ وہ بڑا(گوشت میں زائد) ہوتا ہے۔

 (المحیط البرھانی،ج8،ص468،مطبوعہ کراچی)

    فتاوی بزازیہ میں ہے:’’الابل افضل ثم البقر ثم الغنم من المعز والبقر افضل من الشاۃ اذا استویا قیمۃ لانہ اعظم و اکثر والشاۃ افضل من سبع البقرۃ اذا استویا قیمۃ و لحماً فاذا استویا قیمۃ فاطیبھما لحماً افضل وان اختلفا فالفاضل افضل۔‘‘اونٹ افضل ہے پھر گائے پھر بکری ،بھیڑ سے اور گائے  بکری سے افضل ہے جبکہ دونوں  قیمت میں برابر ہوں کیونکہ گائے زیادہ عظیم اور زیادہ گوشت والی ہےاوربکری گائے کےساتویں حصہ سے   افضل ہے،جبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابر  ہوں پس جب دونوں قیمت کے اعتبار سے برابر ہوں تو ان میں عمدہ گوشت والا افضل ہوگا اور اگر قیمت و گوشت میں مختلف ہوں تو خوبی میں زائد افضل ہوگا۔

(فتاوی بزازیہ،ج2،ص408،مطبوعہ کراچی)

اسی طرح کی عبارت محیط برہانی میں ہے:’’ قال الشیخ ابومحمد البقرۃ افضل من الشاۃفی الاضحیۃ  اذا استویا فی القیمۃ لانھا اعظم و اکبر والشاۃ افضل من سبع البقرۃ  اذا استویا فی القیمۃ واللحم  وان کان سبع البقرۃ اکثر لحماً فسبع البقرۃ افضل والاصل فی ھذا انھما اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبھما لحماً افضل واذا اختلفا فی اللحم والقیمۃ  فالفاضل اولی۔‘‘ شیخ ابومحمد نے فر مایا :قربانی میں گائے  بکری سے افضل ہے جب کہ دونوں  قیمت میں برابر ہوں کیونکہ گائے زیادہ عظیم اور بڑی  ہےاوربکری گائے کےساتویں حصہ سے   افضل ہے،جبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابر  ہوں  اور اگر گائے کا ساتواں حصہ  گوشت کے  اعتبار سے زیادہ ہو تو گائے  کا ساتواں حصہ افضل ہےاوراس بارےمیں قاعدہ یہ ہےکہ جب دو جانورگوشت اورقیمت میں برابرہوں توان میں عمدہ گوشت والاافضل ہے،اوراگرگوشت اورقیمت میں مختلف ہوں  توخوبی میں زائد بہترہے۔

 (المحیط البرھانی،ج8،ص468،مطبوعہ کراچی)

    مذکورہ بالا عبارت سے مدعا ثابت ہے کہ اولاً اس میں پورے جانور کا دوسرے جانور سے تقابل کیا گیا ہے، یہ مراد نہیں ہے کہ گائے کا ایک حصہ چاہے بکری سے گوشت و قیمت میں کم ہو تب بھی افضل ہے اور ثانیا یہ کہ عبارت کے یہ الفاظ’’ لانہ اعظم و اکبر‘‘ واضح طور پر  ہماری تائید کر رہے ہیں کہ اس میں گائے کے بکری سے افضل ہونے کی وجہ اس کے گوشت کے زیادہ ہونے کو بنایا جا رہا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بالفرض بکری میں اگر گوشت زیادہ ہو تو یہ حکم نہیں ہوگا ،لہذا مرقات میں جو حکم مذکور ہوا ،اس کی بنیاد بھی قیمت و گوشت والی تفصیل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہے اور وہ فقہاء کی بیان کردہ تفصیل کے خلاف نہیں  ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم