بکرے کے گلے میں رسولی ہو تو قربانی کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11655

تاریخ اجراء:18ذو القعدۃ الحرام 1442ھ/28جون2021

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کےبارےمیں کہ ہمارے پا س ایک بکرا ہے ، جس کے گلے  میں دو رسولیاں ہیں ، رسولی والی جگہ کھال سے کچھ ابھری ہوئی نظر آتی ہے اور یہ رسولیاں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی  ہیں ، لیکن بکرا صحت مند  ہے اور چارہ  بھی صحیح طور پر کھاتاہے۔کیا اس بکرے کی قربانی ہوسکتی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت  میں  جب بکرے کے گلے میں موجود  رسولی نے بکرے کے کسی عضو کی منفعت کو نقصان نہیں پہنچایا ،تواس بکرے کی قربانی جائز ہے، جبکہ یہ بکراقربانی کے وقت ایک سال کا ہو چکا ہو اور اس میں کوئی ایسا  عیب موجود نہ ہو ، جو قربانی سے مانع ہو ۔سوال میں  جو کیفیت درج ہے، اس  سے اگر بکرے کی خوبصورتی کو نقصان نہیں پہنچا، تواس کی قربانی کرنا ،ناپسند بھی نہیں ہوگااوراگر بکرے کی خوبصورتی کو نقصان پہنچا، تو بہتر یہ ہےکہ اس کی قربانی نہ کی جائے ۔ کیونکہ مستحب  ہےکہ  ایسے جانور کی قربانی کی جائے ، جس میں کوئی چھوٹا سابھی عیب   موجود  نہ ہو ۔

    فتاویٰ عالمگیری میں ہے :” كل عيب يزيل المنفعة على الكمال، أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع “یعنی وہ عیب جو منفعت کومکمل طورپر ختم کردے یا اس کی خوبصورتی کو کامل طورپر ختم کردے ، قربانی سے  مانع ہوگا ،اور جو عیب ایسا نہ ہو وہ قربانی سے  بھی مانع نہیں ہوگا ۔

 (فتاوی عالمگیری،ج5،ص299،مطبوعہ پشاور )

    تبیین الحقائق میں ہے:” والجرباء إن كانت سمينة، ولم يتلف جلدها جاز، لأنه لا يخل بالمقصود“یعنی خارش والاجانور اگرصحت مند ہو ،اور اس کی جلد خراب نہ ہوتو اس کی قربانی جائز ہے، کیونکہ خارش   مقصودمیں نقصان پیدا نہیں کرتی۔

(تبیین الحقائق،ج6،ص5،مطبوعہ ملتان )

    رد المحتار میں جانور کے ہر قسم کے عیب سے پا ک ہونے کے متعلق ہے: ” قال القهستاني: واعلم أن الكل لا يخلو عن عيب، والمستحب أن يكون سليما عن العيوب الظاهرة، فما جوز ههنا جوز مع الكراهة كما في المضمرات“یعنی قہستانی نے کہا:تو جان لے کہ  تمام جانور عیب سے خالی نہیں ہوتے ،او رمستحب یہ ہےکہ جانور تمام ظاہری عیوب سے پاک ہو اور جو تھوڑے عیب والے  جانور کی قربانی کو جائز قرار دیاہے ، وہ کراہت کے ساتھ اس کا جواز مراد ہے، جیساکہ مضمرات میں ہے ۔

 (ردالمحتار مع الدرالمختار، ج09،ص536،مطبوعہ کوئٹہ)

    قربانی کا جانور ہر عیب سےپاک ہونا چاہیے،چنانچہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:”قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہوناچاہیے اور تھوڑا سا عیب ہوتو قربانی ہو جائےگی ،مگر مکروہ  ہو گی ۔“

                              ( بھار شریعت، ج03،ص340،مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم