مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12875
تاریخ اجراء:01ذو الحجۃ الحرام1444
ھ/20جون 2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید
نے ایک بھینس میں قربانی کا حصہ ڈالا ہے جس کے قدرتی
طور پر دو ہی تھن ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس کے بقیہ دو تھن کٹے ہوئے ہوں بلکہ پیدائشی
طور پر اُس بھینس کے دو ہی تھن ہیں۔ آپ سے معلوم یہ
کرنا ہے کہ کیا اس دو تھن والی بھینس کی قربانی
ہوجائے گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی نہیں! دو
تھن والی بھینس کی قربانی جائز نہیں۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ قربانی کے
جانور کا ہر اُس عیب سے پاک ہونا ضروری ہے جو قربانی ہونے
میں رکاوٹ بنے۔فقہائے کرام نے جن عیوب کو مانع قربانی
شمار کیا ہے اُنہی میں سے ایک عیب یہ
بھی ہے کہ چھوٹے جانور کا ایک تھن جبکہ بڑے جانور کے دو تھن
پیدائشی طور پر نہ ہوں
یا کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوچکے ہوں ، بہر صورت ایسے جانور
کی قربانی جائز نہیں، لہذا بیان کردہ صورت میں اُس بھینس کی قربانی جائز نہیں۔
بڑے جانور کے
پیدائشی طور پر دو تھن نہ ہوں تو اس کی قربانی جائز
نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ
فقہیہ میں مذکور ہے:”وفي الخلاصة: مقطوعة رءوس ضروعها لا تجوز، فإن ذهب من واحدة أقل من النصف
فعلى ما ذكرنا من الخلاف في العين والأذن. وفي الشاة والمعز إذا لم يكن لهما إحدى
حلمتيهما خلقةً أو ذهبت بآفة وبقيت واحدة لم يجز، وفي الإبل والبقر إن ذهبت
واحدة يجوز أو اثنتان لا اهـ“یعنی خلاصہ میں ہے کہ جس جانور کے تھن کا سرا کٹا ہو، اس
کی قربانی جائز نہیں، پس اگر ایک تھن آدھے سے کم کٹا ہے
تو اس میں وہی تفصیل ہے جو ہم نے کان اور آنکھ کے بارے
میں بیان کی۔ بکری اور بھیڑ کے دو تھنوں
میں سے ایک تھن قدرتی طور پر نہ ہو یا پھر کسی وجہ
سے کٹ گیا اور ایک باقی ہو تو اس کی قربانی جائز
نہیں، جبکہ اونٹ اور گائے میں اگر ایک تھن کٹ گیا ہو تو
قربانی جائز ہے اور اگر دو تھن کٹے ہوں تو قربانی ناجائز ہے ۔(رد
المحتار مع الدر المختار، کتاب الاضحیۃ ، ج 06، ص 325، مطبوعہ بیروت)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:” وفي الشاة والمعز إذا لم يكن لهما إحدى
حلمتيها خلقۃً أو ذهبت
بآفة وبقيت واحدة لم تجز ، وفي الإبل والبقر إن ذهبت واحدة تجوز ، وإن ذهبت اثنتان
لا تجوز ، كذا في الخلاصة۔“یعنی بکری اور بھیڑ کے دو تھنوں
میں سے ایک تھن قدرتی طور پر نہ ہو یا پھر ایک تھن
کسی آفت کے سبب کٹ گیا ہو اور ایک باقی ہو تو اس کی
قربانی جائز نہیں، جبکہ اونٹ اور گائے میں اگر ایک تھن کٹا
ہو تو قربانی جائز ہے اور اگر دو تھن کٹ چکے ہوں تو قربانی ناجائز ہے،
جیسا کہ خلاصہ میں مذکور ہے۔(فتاوٰی
عالمگیری، کتاب الاضحیۃ،
ج 05، ص 299-298، مطبوعہ پشاور)
بہارِ شریعت
میں ہے:”جس کے تھن کٹے ہوں
یا خشک ہوں ، اس کی قربانی ناجائز ہے ۔ بکری
میں ایک کا خشک ہونا ، ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے اور گائے
بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے۔“(بہارِ
شریعت، ج 03، ص 341، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟