قربانی کے دنوں میں عقیقے کا ایک مسئلہ |
مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالحجۃالحرام1440ھ |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائےدین
و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ بڑی عید پر عقیقہ کرنا چاہیں
توساتھ میں عید کے دنوں میں ہونے والی قربانی بھی
کرنی ہوگی، اگر وہ قربانی نہیں کی تو عقیقہ
بھی ادا نہیں ہوگا۔ کیا یہ مسئلہ درست ہے؟ وضاحت فرمادیں۔ سائل:محمد منصور عطاری(چکوال ،پنجاب ) |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
سوال میں مذکور مسئلہ کہ”جو قربانی
کے دنوں میں عقیقہ کرنا چاہے، اسے ساتھ میں عید کی
قربانی بھی کرنی ہوگی، ورنہ عقیقہ ادا نہیں
ہوگا“ درست نہیں ہے، کیونکہ عقیقہ اور عید کی قربانی،
دو مستقل جدا چیزیں ہیں، عقیقہ سنّتِ مستحبّہ ہے، اگر کوئی
شخص باوجودِ قدرت عقیقہ نہیں کرتا تو وہ گناہ گار یا مستحق عِتاب
نہیں، جبکہ قربانی شرائط متحقق ہونے کی صورت میں واجب اور
اس کا بلاعذر ترک ناجائز و گناہ ہے لہٰذا یہ دوجدا چیزیں
ہیں، ان میں سے ایک کی ادائیگی دوسرے پر ہرگز
موقوف نہیں۔ ہاں دو قربانیاں کرنے کی ایک صورت یہ
بھی ہوسکتی ہے کہ مثلاً کسی پر شرعاً عید کی قربانی
واجب ہے، اب وہ ان دنوں میں عقیقہ بھی کرنا چاہتا ہے تو اس صورت
میں ظاہر ہے کہ اسے دوقربانیاں کرنی ہوں گی، ایک توخود
پر واجب قربانی کی نیت سے اور ایک عقیقہ کی
نیت سے، ایسا شخص اگر صرف عقیقہ کرے، خود پر واجب قربانی
ادا نہ کرے تو گناہ گار ہوگا اور اس کا اس طرح واجب قربانی چھوڑ کر ایک
مستحب کام یعنی عقیقہ کرنا کوئی قابلِ تحسین عمل بھی
نہیں بلکہ بہت بڑی غلطی ہے مگراس صورت میں بھی عقیقہ
ادا ہوجائے گا۔ العقود الدریۃ فی
تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں عقیقہ سے متعلق
فرمایا:”قال فی السراج الوھاج
فی کتاب الاضحیۃ مانصہ مسالۃ: العقیقۃ تطوع
ان شاء فعلھا وان شاء لم یفعل۔ سراج الوہاج، اضحیہ کے باب میں جو فرمایا، اس کی
عبارت یہ ہے کہ مسئلہ:”عقیقہ نفل یعنی مستحب ہے اگر چاہے
تو کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔“ (العقود الدریۃ،ج 2،ص367) قربانی سے متعلق متن تنویر الابصار
اور شرح درمختار میں ہے: ”(فتجب) التضحیۃ (علی حر مسلم مقیم موسر) یسار
الفطرۃ (عن نفسہ)۔ملخصا“ پس آزاد، مسلمان، مقیم کہ جو صدقۂ فطر کے نصاب
کی طاقت رکھتا ہو، اس پر اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ (تنویر و در مع ردالمحتار،ج 9،ص521،524) واجب قربانی کے بجائے دوسرے کی
طرف سے نفلی قربانی کرنے والے سے متعلق صدرالشریعہ مفتی
امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں:”واجب کو ادا نہ
کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی، ہوگئی۔“ (فتاویٰ امجدیہ،ج 3،ص315) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟