Aqiqa Aur Sadqay Ka Janwar Kitni Umar Ka Hona Chahiye?

عقیقے اور صدقے کا جانور کتنی عمر کا ہونا چاہیے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12835

تاریخ اجراء:29شوال المکرم1444ھ/20مئی2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صدقہ اور عقیقہ  کے جانور مثلاً بکری،بكرا یا دنبہ کی عمر کتنی ہونی چاہیے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عقیقے کے جانور  کی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی شرائط ہیں یعنی  بکرا ،بکری ایک سال سے، گائے دو سال سے  اور اونٹ پانچ سال سے کم عمر کا  نہ ہو۔ ہاں!  چھ مہینے کا دنبہ  یا مینڈھا بھی قربان ہوسکتا ہے جبکہ اتنا موٹا تازہ ہو کہ اسے سال کے دنبوں میں ملادیں تو دور سے فرق نہ کیا جائے، یونہی اس جانور کا ہر ایسے عیب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے کہ جو قربانی ہونے سے مانع ہو۔ 

   البتہ جان و مال کی حفاظت، پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کے لیے عموماً نفلی صدقے کے طور پر  کسی بھی عمر کا جانور قربان کیا جاسکتا ہے ، شرعاً اس کی کوئی عمر مقرر نہیں، البتہ عمدہ سے عمدہ جانور راہِ خدا میں قربان کرنا شرعاً محبوب و پسندیدہ عمل ہے۔  

   سننِ ترمذی،ابوداؤد، ، ابنِ ماجہ ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہے: ”والنظم للاول“قال رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الغلام شاتان وعن الأنثى واحدة ولا يضركم ذكرانا كن أم إناثاترجمہ : ”رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عقیقے میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری قربان کی جائے، البتہ جانور کا نر یا مادہ ہونا تمہیں نقصان نہ دے گا۔ (سنن الترمذي،ابواب الاضاحی ،  باب الاذان فی اذن المولود، حدیث 1516،  ج04،ص98، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی )

   عقیقہ اسی جانور کا ہوسکتا ہے جس جانور کی قربانی جائز ہے۔ جیسا کہ امام ترمذی علیہ الرحمہ سننِ ترمذی میں نقل فرماتے ہیں:قالوا: لايجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحيةیعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ عقیقہ میں وہی بکری ذبح کی جاسکتی ہے کہ جس کی قربانی جائز ہو۔(سنن الترمذي، ابواب الاضاحی ، باب من العقیقۃ،  ج04،ص101، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی)

   مرآۃ المناجیح میں ہے:” عقیقہ کے احکام قربانی کی طرح ہیں کہ عقیقہ کی بکری ایک سال سے کم نہ ہو،گائے دوسال سے اور اونٹ پانچ سال سے،نیز بکری صرف ایک کی طرف سے ہوسکتی ہے،گائے اونٹ میں سات عقیقہ ہوسکتے ہیں اس طرح کہ لڑکے کے دو حصے لڑکی کے لیے گائے وغیرہ کا ایک حصہ۔“(مرآۃ المناجیح، ج 06، ص 03، نعیمی کتب خانہ)

   عقیقے کے احکام بیان کرتے ہوئے علامہ شامی علیہ الرحمہ عقود الدریہ  میں ارشاد فرماتے ہیں: إذا أراد أن يعق عن الولد ، فإنه يذبح عن الغلام شاتين وعن الجارية شاة ؛ لأنه إنما شرع للسرور بالمولود وهو بالغلام أكثر ولو ذبح عن الغلام شاة وعن الجارية شاة جاز“ یعنی جب کوئی شخص بچے کا عقیقہ کرنا چاہے تو وہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری قربان کرے کیونکہ عقیقہ بچہ پیدا ہونے کی خوشی میں مشروع ہے جبکہ  لڑکے کی پیدائش میں خوشی بھی زیادہ ہوتی ہے، البتہ اگر وہ شخص لڑکے کی طرف سے ایک بکری اور لڑکی کی طرف سے بھی ایک ہی بکری قربان کردے تو یہ بھی جائز ہے۔ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ، کتاب الذبائح، العقیقۃ، ج 02، ص212، دار المعرفۃ)

   فتاوٰی شامی میں ہے:وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى۔یعنی بچہ اور بچی کا عقیقہ ایسی بکری سے ہوسکتا ہے  جس کی قربانی جائز ہو۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص 554، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ” کیا حکم ہے شرع مطہر ہ کا دربارہ عقیقہ کے:(۱) جانور ذبح کئے جائیں ان کی عمر کیا ہونا چاہئے،ا ور اگر کسی عضو میں نقصان رکھتے ہوں وہ کام میں آسکتے ہیں یانہیں؟ “ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”(۱) ان  امور میں احکام عقیقہ مثل قربانی ہیں، اعضا سلامت ہوں، بکرابکری ایک سال سے کم کی جائز نہیں، بھیڑ ، مینڈھا چھ مہینہ کا بھی ہوسکتا ہے جبکہ اتنا تازہ وفربہ ہو کہ سال بھر والوں میں ملادیں تو دور سے متمیز نہ ہو۔(فتاوٰی  رضویہ ، ج 20 ، ص584 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   بہارِ شریعت میں ہے :” عقیقہ کا جانور انھیں شرائط کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا قربانی کے لیے ہوتا ہے۔ “   (بہارِ شریعت، ج 03، ص357، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم