Bache Ka Aqiqah Waldain Ke Ilawa Kon kon Kar Sakta Hai ?

بچے کا عقیقہ والدین کے علاوہ کون کون کرسکتا ہے؟

مجیب:مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2765

تاریخ اجراء: 25ذیقعدۃالحرام1445 ھ/03جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ ایک بچے کے والدین کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ان کا کوئی رشتے دار اس بچے کی طرف سے عقیقہ کرسکتا ہے یا والدین کا  خود عقیقہ کرنا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سب سے پہلے یہ ذہن نشین رہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں اگر کوئی نہ کرے تو گنہگار نہیں ہوگا،  بلکہ بچہ ہو یا بچی اس کا عقیقہ کرنا  مستحب ہے، اس میں افضل یہ ہے  کہ اس کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا نام رکھا جائے،اور اسی دن اس کا عقیقہ کیا جائے۔

   نیز اگر والدین کےپاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ عقیقہ کرسکیں یا پیسے موجود ہیں لیکن کوئی اور رشتے دار عقیقہ کرنا چارہا ہے  تو والدین کی رضا مندی سے کوئی دوسرا رشتے دار جیسے دادا،دادی ،نانا ،نانی وغیرہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن اور امام  حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ کیا تھا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نانا جان تھے۔لہذا والدین کے علاوہ کوئی دوسرا رشتے دار بھی بچے کی طرف سے عقیقہ کرسکتا ہے۔

   چنانچہ سنن ابو داؤد شریف میں ہے :”عن ابن عباس: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عق عن الحسن والحسين كبشا كبشا“ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن اور امام  حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے بطور عقیقہ ایک ایک  مینڈھا  ذبح کیا۔(سنن ابو داؤد،کتاب الضحایا،حدیث :2841،ص360،دار الحضارۃ)

   بہار شریعت میں ہے :”حنفیہ کے نزدیک عقیقہ مباح و مستحب ہے۔‘‘(بہار شریعت  ،ج03،حصہ 15،ص355،مکتبۃ المدینہ )

   بہارشریعت میں ہے:’’عقیقہ کےلیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں  تو جب چاہیں کر سکتے ہیں،  سنت ادا ہو جائے گی۔“(بہار شریعت  ،ج03،حصہ 15،ص356،مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم