Camel Ki Qurbani Me Kitne Hisse Hote Hain?

اونٹ کی قربانی میں کتنے حصے ہو سکےہیں ؟

مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-5306

تاریخ اجراء:29ذوالحجۃ الحرام1438ھ/05 اگست2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک اونٹ میں زیادہ سے زیادہ کتنے حصے ہو سکتے ہیں ،بعض لوگ کہتے ہیں کہ اونٹ کی قربانی میں دس حصے بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا :’’ہم نے اونٹ دس افراد کی طرف سے قربان کیا‘‘(بحوالہ جامع ترمذی )برائے کرم دلائل کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ کیا واقعی اونٹ کی قربانی میں دس حصے ہو سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اونٹ کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں ،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کاحکم ارشاد فرمایااور خود بھی اسی پر عمل فرمایا۔

     چنانچہ سنن ابی داؤد،ج2،ص40،معجم اوسط،ج9،ص35،معجم کبیر،ج9،ص35میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’البقرۃ عن سبعۃ والجزور عن سبعۃ‘‘ترجمہ:گائے اور اونٹ سات کی طرف سے قربان ہو سکتا ہے ۔(سنن ابی داؤد،ج2،ص40،کتاب الضحایا،باب فی البقروالجزور عن کم تجزی،مطبوعہ لاھور)

     حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو بھی سات افراد کی طرف سے اونٹ قربان کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔چنانچہ صحیح مسلم ،ج1، ص392، مسند احمد بن حنبل،ج22،ص15،معجم کبیر للطبرانی، ج7، ص120میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی وہ فرماتے ہیں :’’امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشترک فی الابل والبقرکل سبعۃ منا  فی بدنۃ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں شریک ہو کر قربانی کریں اس طرح کہ ایک اونٹ میں سات افراد شریک ہوں ۔(صحیح المسلم ،کتاب الحج ،باب بیان وجوہ الاحرام،ج1،ص392، مطبوعہ کراچی)

     حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی سات افراد کی طرف سے ہی اونٹ قربان کیا ۔چنانچہ صحیح مسلم،ج1،ص424،سنن کبریٰ للبیہقی، ج5، ص383،صحیح ابن خزیمہ ،ج2،ص1364میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی وہ فرماتے ہیں :’’نحرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ، والبقرۃ عن سبعۃ‘‘ترجمہ:ہم نے حدیبیہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ اور گائے دونوں کو سات سات افراد کی طرف سے قربان کیا ۔ (صحیح المسلم ،کتاب الحج ،باب الاشتراک،ج1،ص424،مطبوعہ کراچی )

     مذکورہ حدیث ِ مبارکہ کو نقل کرنے کےبعد امام محمد بن عیسیٰ ترمذی ارشاد فرماتے ہیں:’’حدیث جابر،حدیث حسن صحیح،والعمل علی ھذاعنداھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم یرون الجزور عن سبعۃوالبقرۃ عن سبعۃ،وھو قول سفیان الثوری والشافعی واحمد‘‘ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ،حسن صحیح ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وہ اونٹ اور گائے کو سات افراد کی طرف سے کافی سمجھتے تھے ،یہی قول سفیان ثوری ،امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ تعالی کا بھی ہے ۔ (سنن ترمذ ی ،ابواب الحج ،باب ما جاء فی الاشتراک فی البدنہ والبقرۃ،ج1،ص180،مطبوعہ کراچی)

     ان احادیث کی روشنی میں فقہائے کرام رحمہم اللہ السلام نے بھی اپنے اپنے دور میں یہی فتوی دیا کہ اونٹ کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہی ہو سکتے ہیں۔چنانچہ در الحکام شرح غرر الاحکام،ج1،ص266،تبیین الحقائق،ج6،ص3،بحر الرائق ،ج8،ص198،مجمع الانہر،ج2،ص517اور بدائع الصنائع میں بالفاظِ مختلفہ یہ مسئلہ موجود ہے :’’ولا یجوز بعیر واحد ولا بقرۃ واحدۃ عن اکثر من سبعۃ،ویجوز ذلک عن سبعۃاواقل من ذلک،وھذا قول عامۃ العلماء‘‘ترجمہ:سات سے زیادہ شرکاء کی طرف سے ایک اونٹ یاایک گائے کی قربانی جائزنہیں ،بلکہ ان میں فقط سات یا اس سے کم افراد ہی شریک ہو سکتے ،یہی اکثر علماء کا قول ہے ۔(بدائع الصنائع ،کتاب التضحیہ،فصل فی محل اقامۃ الواجب فی الاضحیۃ،ج4،ص206تا207،مطبوعہ کوئٹہ)

     رہی یہ بات کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے ارشاد فرمایا:ہم نے اونٹ دس افراد کی طرف سے قربان کیا، تو یہ حدیث جامع ترمذی میں ان الفاظ کے ساتھ موجودہے :’’عن ابن عباس قال:کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر،فحضر الاضحی، فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ،وفی الجزور عشرۃ‘‘ترجمہ:مفہوم مذکور ہوا ۔(سنن ترمذ ی ،ابواب الحج ،باب ما جاء فی الاشتراک فی البدنہ والبقرۃ،ج1،ص180،مطبوعہ کراچی)

     لیکن یاد رہے یہ حدیث چند وجوہ سے قابل ِعمل نہیں:

     اولاً:یہ حدیث دیگر کتب میں بھی موجود ہے، مگر ان میں شک کے الفاظ ہیں ،یعنی دس افراد شریک ہوئے تھے یا سات، جبکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں یقین کے الفاظ ہیں کہ اونٹ کی قربانی میں سات افراد ہی شریک ہوسکتے ہیں ،لہذا یہ حدیث قابل عمل نہیں ۔

     چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں یہ حدیث شک کے الفاظ کے ساتھ یوں مروی ہے:’’کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فحضر النحر،فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ،وفی البعیر سبعۃ او عشرۃ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے اسی حالت میں عید الاضحی آ گئی، تو ہم نے گائے سات افراد کی طرف سے جبکہ اونٹ سات یا دس افراد کی طرف سے قربان کیا ۔(صحیح ابن خزیمہ ،ج9،ص318،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

     مرقاۃالمفاتیح میں ہے :’’واما ما ورد:فی البدنۃ سبعۃ او عشرۃ فھو شاک،وغیرہ جازم بالسبعۃ‘‘ترجمہ:بہرحال جس حدیث میں دس یا سات افراد کی شرکت کا تذکرہ ہے تو یہ شک کے ساتھ مروی ہے ،اور اس کے علاوہ دیگر احادیث یقین کے ساتھ مروی ہیں کہ اونٹ کی قربانی میں سات افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج3،ص1086،مطبوعہ دار الفکر بیروت)

     ثانیاً:یہ حدیث حسن غریب ہے ،جبکہ سات افراد کی شرکت والی حدیث حسن صحیح ہے، لہذا اُس کے مقابلے میں یہ حدیث متروک ہے ۔

     چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد خود ارشاد فرمایا:’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘ترجمہ:یہ حدیث حسن غریب ہے ۔(سنن ترمذ ی ،ابواب الحج ،باب ما جاء فی الاشتراک فی البدنہ والبقرۃ،ج1،ص180،مطبوعہ کراچی)

     اور مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت ارشاد فرماتے ہیں :’’یہ حدیث حسن غریب ہے ،اور سات کی روایات نہایت صحیح،لہذا اُس کے مقابل یہ حدیث متروک ہے ۔‘‘( مراٰۃ المناجیح،ج2،ص374،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،کراچی)

     ثالثاً:دس افراد کی شرکت والی حدیث سات افراد کی شرکت والی حدیث سے منسوخ ہے ۔

     چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے :’’انہ منسوخ مما مر من قولہ:البقرۃ عن سبعۃ، والجزور عن سبعۃ‘‘ترجمہ:دس افراد کی شرکت والی حدیث اس حدیث سے منسوخ ہے جس میں یہ بیان ہوا کہ گائے اور اونٹ سات افراد کی طرف سے ہی قربان ہو سکتے ہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج3،ص1086،مطبوعہ دار الفکر بیروت)

     اگر اس حدیث کو قابل عمل مان بھی لیا جائے، تو اس سے مراد قیمت میں شرکت ہے، نہ کہ قربانی میں ،یعنی حقیقتاً اونٹ کی قربانی میں سات افراد ہی شریک تھے ،مگر اس کی قیمت دس افراد نے مل کر ادا کی جو ہمارے نزدیک بھی درست ہے ۔

     چنانچہ التعلیق الممجد علی مؤطا محمدمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث کے تحت ہے :’’محمول علی الاشتراک فی القیمۃ، لا فی التضحیۃ‘‘ترجمہ:یہ حدیث قیمت کی شرکت پر محمول ہے، نہ کہ قربانی کی شرکت پر۔(التعلیق الممجد علی مؤطا محمد ،باب الذبائح ،ج2،ص626،مطبوعہ دار القلم ،دمشق)

     اسی طرح وہ روایات جن میں اونٹ کی قربانی میں دس افراد کی شرکت کا تذکرہ ہے، تووہ بھی مذکورہ یا ان کے علاوہ دیگر وجوہات کی بناء پر قابل ِعمل نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم