Janwar Ki Zuban Na Ho Ya Kati Hui Ho To Qurbani Ka Hukum?

جانور کی زبان نہ ہو یا کٹی ہوئی ہو تو قربانی کا حکم؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7231

تاریخ اجراء:29ذالقعدۃ الحرام1444ھ/19جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس  مسئلے کے بارےمیں کہ اگر قربانی کے جانور (بکری، گائے وغیرہ)کی زبان  نہ ہو یا زبان کٹی ہوئی ہو، تو   اس کی  قربانی جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر قربانی کے جانور کی زبان نہ ہو یا  پوری زبان یا اس کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو، تو اس کی قربانی کے جواز یا عدمِ جواز کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ چارہ کھا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ جانور زبان کے نہ ہونے یا کٹے ہوئے ہونے کے باوجود صحیح طور پر چارہ کھا سکتا ہو، تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر چارہ نہ کھا سکے، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہو گی۔

   بعض جانور زبان کے ذریعے چارہ کھاتے ہیں اور بعض دانتوں سے کھاتے ہیں، جو جانور زبان سے چارہ کھاتے ہیں، تو ظاہری سی بات ہے کہ  زبان نہ ہونا یا  زبان  کا کٹا ہوا ہونا ان کے لیے چارہ کھانے میں مخل ہوسکتا ہے، جبکہ  جو جانور دانتوں سے چارہ کھاتے ہیں،اگر ان کی زبان نہ ہو یا کٹی ہوئی ہو، تو ضروری نہیں کہ چارہ کھانے میں ان کے لیے کسی قسم کا مسئلہ بنے ،تو اس  اعتبار سے ان کی قربانی کے احکام میں فرق  پڑے گا۔اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ قربانی کے جانور کی زبان نہ ہو یا  پوری زبان  یا اس کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو، تو مختلف جانوروں کے اعتبار سے قربانی کے جواز یا عدمِ جواز کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:

   (1)گائےیا اس کی جنس کے جانور جیسے بیل وغیرہ کی زبان نہ ہو یا پوری زبان کٹی ہوئی ہو، تو اس کی قربانی مطلقا ناجائز ہے ، اس وجہ سے کہ    گائے یا بیل وغیرہ  اپنی زبان کے ذریعے چارہ کھاتے ہیں  اور زبان نہ ہو، تو ان کے لیے چارہ کھانا، ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا ان  میں زبان کا نہ ہونا مانع قربانی عیب شمار ہو گا۔البتہ اگر گائے  یا بیل وغیرہ  کی زبان کا بعض حصہ کٹا ہو اور بقیہ زبان موجود ہو، تو اس صورت میں کتنی زبان کٹی ہوئی ہو، تو  عیب  شمار ہو گا؟ اس بارے میں    فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر زبان تہائی حصے سے زیادہ کٹی ہوئی ہو،  تو  یہ مانع قربانی عیب کہلائے گا  کہ عموماً تہائی سے زیادہ کٹے ہونے  کی صورت میں  چارہ کھانے میں خلل واقع ہوتا ہے ۔

   (2)بکری یا اس کی جنس کے جانور  جیسے بھیڑ وغیرہ  کی زبان نہ ہو یا پوری زبان  یا اس   کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو، تو اس  کی قربانی ہونے یا نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں :

   (۱)اگر وہ چارہ کھا سکتی ہو، تواس کی قربانی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، جبکہ اس کے علاوہ کوئی مانع قربانی عیب نہ پایا جائے، اس وجہ سے کہ  عمومی طور پر بکری یا اس کی جنس کے جانوراپنے دانتوں سے چارہ  کھاتے ہیں، توغالب یہی ہے کہ زبان کے نہ ہونے سے  ان کے چارہ کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لہٰذا  اس صورت میں ان کی قربانی جائز ہے۔

   (۲)اگر زبان نہ ہونے یا کٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے اس کے چارہ کھانے میں خلل واقع ہو، تواس کی قربانی جائز نہیں ہو گی۔

   جانور کی زبان  نہ ہو یا کٹی ہوئی ہو، تو قربانی ہونے یا نہ ہونے کا مدار اس پر ہے کہ وہ چارہ کھا سکتا ہے یا نہیں۔چنانچہ علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ”مقطوعۃ اللسان ان کان لا یخل بالاعتلاف کذا اجاب ابو الحسن المرغینانی ترجمہ:جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو، اگر یہ چارہ چرنے میں   مخل نہ ہو،  تو اس کی قربانی جائز ہے  ۔  علامہ ابو الحسن مرغینانی علیہ الرحمۃ  نے اسی طرح کا جواب ارشاد فرمایا ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، ج4، ص165،مطبوعہ کوئٹہ)

   گائے یا بیل وغیرہ کی زبان نہ ہو یا پوری زبان کٹی ہوئی ہو، تو اس کی قربانی مطلقاً ناجائز ہے۔چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”لا البقر لانہ یاخذ العلف باللسان و الشاۃ بالسنترجمہ:گائے کی زبان نہ ہو، تواس کی قربانی جائز نہیں ، اس وجہ سے کہ گائے زبان سے چارہ کھاتی  ہے اور بکری  دانتوں کے ذریعے چارہ کھاتی ہے ۔(ردالمحتار، ج6،ص325، دار الفکر، بیروت)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:” و قطع اللسان فی الثور یمنع  ترجمہ:اور  بیل میں زبان کا   کٹا ہوا ہونا  قربانی سے مانع ہے ۔(فتاوی عالمگیری، ج5،ص298، مطبوعہ کراچی)

   اور اگراس کی  زبان کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو  اور وہ تہائی سے زیادہ  ہو، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہو گی ۔علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”قیل ان انقطع من اللسان اکثر من الثلث لا یجوز۔ اقول و ھو الذی یظھر قیاسا علی الاذن و الذنب بل اولیٰ لانہ یقصد بالاکل  و قد یخل قطعہ بالعلف  ترجمہ:کہا گیا کہ اگر( گائے وغیرہ)جانور کی زبان تہائی سے زیادہ کٹی ہو، تو اس کی قربانی جائز نہیں ۔ میں (علامہ شامی) کہتا ہوں کہ کان اور دم پر قیاس  کرتے ہوئے یہی  حکم ظاہر ہے، بلکہ اولیٰ ہے ، کیونکہ کھانے کے ساتھ یہ مقصود ہے اور اتنی مقدار کا کٹا ہوا ہونا کھانے میں خلل ڈالتا ہے۔(ردالمحتار، ج6،ص325، دار الفکر، بیروت)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”سئل ایضا عمن قطع بعض  لسان الاضحیۃ  و ھو اکثر من الثلث ھل تجوز الاضحیۃ  علی قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ ؟ فقال لا  کذا فی التتارخانیۃ“ ترجمہ :عمرو بن حافط علیہ الرحمۃ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ  قربانی کے جانور کی زبان کا تہائی سے زیادہ حصہ کٹ جائے ، تو امام اعظم علیہ الرحمۃ کے قول کے مطابق اس کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ تو فرمایا :  اس کی قربانی جائز نہیں ،جیسا کہ تتارخانیہ میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری، ج5،ص298، مطبوعہ کراچی)                        

   بکری( یا اس کی جنس کے جانور) کی زبان نہ ہو یا  کٹی ہوئی ہو، تو اس  کی قربانی ہونے  یا نہ ہونے میں  کچھ تفصیل ہے۔چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”والتی لا لسان لھا فی الغنم خلاصۃ ای لا البقر لانہ یاخذ العلف باللسان و الشاۃ بالسن“ ترجمہ: بکریوں    کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  بکری کی زبان نہ ہو،تو اس کی قربانی جائز ہے (خلاصہ)  یعنی  گائے کا یہ حکم نہیں ، اس وجہ سے کہ  گائے زبان سے چارہ کھاتی  ہے اور بکری  دانتوں کے ذریعے چارہ کھاتی ہے ۔(ردالمحتار، ج6،ص325، دار الفکر، بیروت)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:”ولو كانت الشاة مقطوعة اللسان هل تجوز التضحية بها؟فقال:نعم إن كان لا يخل بالاعتلاف، وإن كان يخل به لا تجوز التضحية بها“ترجمہ:اور اگر  بکری کی زبان کٹی ہوئی ہو، تو کیا اس کی قربانی جائز ہو گی؟ تو فرمایا  : جی ہاں ! جبکہ  زبان کا کٹا ہونا چارہ کھانے میں خلل نہ ڈالے  اور اگر  چارہ کھانے میں مخل ہو،  تو  قربانی جائز نہیں ہو گی  ۔(فتاوی عالمگیری، ج5،ص298، مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم