Kya Oont Mein Qurbani Ke 10 Hisse Ho Sakte Hain? Hadees Ki Sharah

کیا اونٹ میں قربانی کے 10 حصے ہو سکتے ہیں؟نیزایک حدیثِ پاک کی تشریح

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-1750

تاریخ اجراء:20ذوالقعدالحرام1445ھ/29 مئی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک اونٹ  کی قربانی میں کتنے لوگ حصہ شامل کر سکتے ہیں؟بعض لوگ یہ  کہتے ہیں کہ اونٹ کی قربانی میں دس لوگ حصہ شامل کر  سکتے ہیں اور پھر اپنی تائید میں یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ

   حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے ترمذی شریف میں مروی ہے : كنا مع النبي صلى اللہ عليه وسلم في سفر، فحضر الأضحى، فاشتركنا في البقرة سبعة، وفي الجزور عشرة ترجمہ: ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے،اسی حالت میں عید الاضحیٰ آ گئی، تو ہم نے گائے سات افراد کی طرف سے، جبکہ اونٹ دس افراد کی طرف سے قربان کیا ۔(سنن الترمذی،جلد2،صفحہ 241،حدیث نمبر905،دار الغرب الاسلامی،بیروت)

   اسی طرح عوام  کے ذہنوں میں اس طور پر تشویش پیدا کی جاتی ہے کہ جب اونٹ  کا گوشت گائے سے زیادہ ہے، تو شرکاء کے اعتبارسے بھی یہ سات کے بجائے دس افراد کےلیے کافی  ہونا چاہیے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم كی احادیث قولیہ  و فعلیہ،متعدد صحابہ کرام  علیھم الرضوان کے آثار ِ شریفہ،اجلہ تابعین کے اقوال اور کثیر  فقہاء کے اتفاق سے یہ بات واضح ہے کہ گائے کی طرح اونٹ  کی قربانی میں بھی  زیادہ سے زیادہ سات افراد  شرکت کر سکتے ہیں ۔ نیز نظرِ صحیح و عقل ِ سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اونٹ  کی قربانی میں  سات سے زائد افراد کی شراکت  درست نہ ہو ۔

احادیث قولیہ و فعلیہ :

   حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہےکہ: فأمرنا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أن نشترك في الإبل والبقر كل سبعة منا في بدنة ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں شریک ہو کر قربانی کریں اس طرح کہ ایک اونٹ میں سات افراد شریک ہوں ۔(صحیح المسلم،جلد2،صفحہ955،حدیث 1318،دار احیاء التراث،بیروت)

   حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے  کہ :نحرنا مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة ترجمہ: ہم نے حدیبیہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ اور گائے دونوں کو سات سات افراد کی طرف سے قربان کیا ۔(صحیح المسلم،جلد2،صفحہ955،حدیث 1318، دار احیاء التراث،بیروت)

   مذکورہ بالا حدیث مبارک کے بارے میں  امام ترمذی ارشاد فرماتے ہیں : والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى اللہ عليه وسلم وغيرهم: يرون الجزور عن سبعة، والبقرة عن سبعة، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، وأحمد، وروي عن ابن عباس عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أن البقرة عن سبعةترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وہ اونٹ اور گائے کو سات افراد کی طرف سے کافی سمجھتے تھے ،یہی قول سفیان ثوری ،امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ تعالی کا بھی ہے ۔اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ گائے سات افراد کی طرف سے کافی ہے ۔(سنن الترمذی،جلد2،صفحہ 240،حدیث904،دار الغرب الاسلامی،بیروت)

آثار صحابہ و اقوال تابعین:

   شرح معانی الآثار میں حضرت سیدنا علی المرتضی ،حضرت سیدنا ابن مسعود  اور سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم  کے حوالے سے مروی ہے،  آپ حضرات کے نزدیک بھی اونٹ زیادہ سے زیادہ سات آدمیوں کو ہی کفایت کر سکتا ہے :حدثنا فهد، قال: ثنا أبو نعيم، قال: ثنا إسرائيل، عن عيسى بن أبي عزة، عن عامر، عن علي، وعبد اللہ رضي اللہ عنهما ، قالا: «البدنة عن سبعة ، والبقرة عن سبعة» وقد روي مثل ذلك أيضا  عن أنس رضي اللہ عنه ، يحكيه عن أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ورضي عنهم ترجمہ: حضرت سیدنا علی المرتضی ،حضرت سیدنا ابن مسعود   نے فرمایا :اونٹ سات افراد کی طرف سے ذبح کیا جا سکتا ہے اور گائے  بھی سات افراد کی طرف سے ذبح کی جا سکتی ہے۔اور اسی کی مثل حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور وہ اسے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہم سے بیان کرتے ہیں۔(شرح معانی الآثار،جلد4،صفحہ 175،عالم الکتب،بیروت)

   نخب الافكار  شرح معاني  الآثار  کے حوالے  سے چند آثار ِ صحابہ اور اقوال تابعین ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں ،یہ بات واضح رہے کہ یہی آثار و اقوال جس طرح علامہ عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر فرمائے ہیں ،اسی طرح مخالفین کی مسلمہ شخصیت ابن حزم نے  بھی المحلی میں ذکر کیے ہیں۔چنانچہ نخب الافكار  شرح معانی  الآثار ميں  ہے :

   ()عن علقمة عن ابن مسعود: "البقرة والجزور عن سبعة"وأخرج ابن حزم نحوه: عن حذيفة وجابر وعلي رضي اللہ عنهم ترجمہ:حضرت علقمہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہسے روایت کرتے ہیں کہ گائے اور اونٹ سات افرادکی طرف سے کفایت کرتے ہیں ،اس کو ابن حزم وغیرہ نے حضرت حذیفہ ،حضرت جابر،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ متعدد صحابہ کرام سے روایت کیا ہے ۔(نخب الافكار  شرح معاني  الآثار،جلد12،صفحہ 531،وزارۃ الاوقاف،قطر)

   ()عن أنس قال: "كان أصحاب رسول اللہ عليه السلام  يشتركون السبعة في البدنة من الإبل والسبعة في البدنة من البقرترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب گائے اور اونٹ کے ساتویں حصہ میں شرکت کرتے  تھے ۔(نخب الافكار  شرح معاني  الآثار،جلد12،صفحہ 531،وزارۃ الاوقاف،قطر)

   ()عن الشعبي قال: "أدركت أصحاب محمد عليه السلام  وهم متوافرون كانوا يذبحون البقرة والبعير عن سبعة ترجمہ:شعبی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیر اصحاب کو اس حال میں پایا  کہ وہ لوگ گائے اور اونٹ  کوسات افراد  کی طرف سے قربان کرتے  تھے ۔(نخب الافكار  شرح معاني  الآثار،جلد12،صفحہ 547،وزارۃ الاوقاف،قطر)

   ()إبراهيم قال: "كان أصحاب محمد عليه السلام يقولون: البقرة والجزور عن سبعة ترجمہ:ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام فرمایا کرتے تھے کہ گائے اور اونٹ سات افراد کی طرف سے کافی ہے۔(نخب الافكار  شرح معاني  الآثار،جلد12،صفحہ 548،وزارۃ الاوقاف،قطر)

نظرِ صحیح  کا فیصلہ اور سوال میں ذکر کردہ  عقلی اشکال کا جواب:

   اونٹ  کی قربانی میں شراکت کے مسئلہ کو اگر عقلی اعتبار  سے دیکھا جائے ،تو اس سے بھی  یہ واضح ہوتا ہے کہ  اونٹ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں،اس کی تفصیل  یہ ہے کہ موافقین و مخالفین  تمام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گائے  کی قربانی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ  سات افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں ،نیز  اس پر بھی اتفاق ہے کہ گائے  بدنہ میں شامل ہے ،لہذا جب گائے بدنہ میں شامل ہونے کے باوجود   فقط سات افراد کی طرف سے کفایت کرتی ہے، تو اونٹ کا حکم بھی یہی ہو گا کہ وہ سات افراد کی طرف سے کفایت کرے گا۔اب اگر اس پر کوئی شخص وہی اشکال قائم کرے جو سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ  گائے اگرچہ بدنہ میں تو شامل ہے،  لیکن  اپنی جسامت اور گوشت پوست کے اعتبار سے یہ اونٹ سے کم ہوتی ہے  ، لہذا جب گائے میں سات حصے  شامل ہوتے ہیں، تواونٹ جو  کہ جسامت میں بڑا ہے، اس میں سات سے زیادہ یعنی دس حصے  شامل ہونے چاہییں۔

   تو اس کا جواب یہ ہے کہ حصوں کی شراکت کا مدار  جانور کے گوشت یا جسامت کے بڑا ہونے پر نہیں ہے ،یہی وجہ ہےکہ قربانی کی شرائط پر پوری اترنے والی گائے،  خواہ  درمیانی ساخت کی ہو ،دبلی پتلی  ہو یا خوب موٹی تازی بہر صورت سات افراد کی طرف سے ہی کفایت کرتی ہے ،ایسا نہیں کہ جس گائے  کا گوشت زیادہ ہے، وہ زیادہ افراد کی طرف سے کفایت کرتی ہے اور جس کا کم ہے، وہ کم افراد کی طرف سے کفایت کرتی ہے ،اس طرح دونوں گروہوں  کے نزدیک جو اونٹ میں سات  یا دس افراد کی شرکت کے قائل ہیں، ان کے نزدیک قربانی کی شرائط پر پورا اترنے والا   اونٹ بہرصورت  سات یا دس کی طرف سے ہی کافی ہو گا، اس کے موٹے یا پتلے ہونے سے کوئی فرق نہیں آئے گا۔

   لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ  کسی جانور کا جسمانی ساخت میں بڑا یا چھوٹا  ہونا ، موٹا   یا پتلا ہونا ا ن امور میں سے نہیں ہے کہ جس کی وجہ ان کے درمیان   فرق کیا جاسکے ،تو مآل کار وہی ہوا کہ گائے اور اونٹ بدنہ ہونے میں مشترک ہیں ،لہذاسات افراد کو کفایت کرنے کے حکم کے اعتبار سے  بھی مشترک ہوں گے،  ان کے باہمی موٹا یا بڑا ہونےسے فرق نہیں ہو گا۔

   شرح معانی الآثار میں ہے:وأما وجه ذلك من طريق النظر ، فإنا قد رأيناهم قد أجمعوا أن البقرة لا تجزئ في الأضحية ، عن أكثر من سبعة وهي من البدن باتفاقهم. فالنظر على ذلك أن تكون الناقة مثلها ، ولا تجزئ عن أكثر من سبعة. فإن قال قائل: إن الناقة وإن كانت بدنة كما أن البقرة بدنة، فإن الناقة أعلى من البقرة في السمانة والرفعة. قيل له: إنها وإن كانت كما ذكرت ،فإن ذلك غير واجب لك به علينا حجة. ألا ترى أنا قد رأينا البقرة الوسطى، تجزئ عن سبعة وكذلك ما هو دونها، وما هو أرفع منها. وكذلك الناقة تجزئ عن سبعة ، أو عن عشرة ، رفيعة كانت أو دون ذلك. فلم يكن السمن والرفعة، مما يميز به بعض البقر عن بعض ، ولا بعض الإبل عن بعض ،فيما تجزئ في الهدي والأضاحي. بل كان حكم ذلك كله حكما واحدا يجزئ عن عدد واحد. فلما كان ما ذكرنا كذلك ، وكانت الإبل والبقر بدنا كلها ،ثبت أن حكمها حكم واحد، وأن بعضها لا يجزئ أكثر مما يجزئ عنه البعض الباقي ، وإن زاد بعضها على بعض في السمن والرفعة. فلما كانت البقرة لا تجزئ عن أكثر من سبعة،كانت الناقة أيضا كذلك في النظر لا تجزئ عن أكثر من سبعة،قياسا ونظرا،على ما ذكرناهمفہوم اوپر گزر چکا ہے۔(شرح معانی الآثار،جلد4،صفحہ 175،عالم الکتب،بیروت)

سوال میں ذکر کی گئی روایت کے جوابات:

   جہاں تک سوال میں ذکر کی گئی روایت کا تعلق ہے، تو کثیر احادیث قولیہ و فعلیہ ،آثار صحابہ و تابعین کے  مقابلے  میں  متعدد وجوہات کے پیش ِ نظر یہ لائقِ استدلال نہیں ہے :

   (اولاً:)خود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے  اس باب میں روایا ت مختلف ہیں ،چنانچہ سوال  میں ذکر  کی گئی روایت کے مطابق اونٹ میں دس افراد کا شریک ہونا ثابت ہوتا ہے ،جبکہ آپ سے ہی مرفوعاً مروی ہے کہ  اونٹ سات افراد کی طرف سے کفایت کرتا ہے ۔ چنانچہ معرفۃ السنن و الآثار میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے :عن النبي صلى اللہ عليه وسلم في «الناقة عن سبعةترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے مروی ہے کہ اونٹ سات افراد کی طرف سے کفایت کرتا ہے۔(معرفۃ السنن و الآثار،جلد14،صفحہ 63،دارالوفاء،قاھرہ)

   (ثانیاً:)سوال میں ذکر کی گئی روایت دیگر کثیراحایث طیبہ ،نیز خود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھماسے مروی دیگر روایات کے پیش نظر منسوخ ہے۔چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے :’’انہ منسوخ مما مر من قولہ:البقرۃ عن سبعۃ، والجزور عن سبعۃ‘‘ترجمہ:دس افراد کی شرکت والی حدیث اس حدیث سے منسوخ ہے ،جس میں یہ بیان ہوا کہ گائے اور اونٹ سات افراد کی طرف سے ہی قربان ہو سکتے ہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج3،ص1086،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   (ثالثاً)سوال میں ذکر کی گئی روایت سنداً اور متنا ً دونوں طرح سے مضطرب ہے ۔

اضطراب ِ متن:

   اس  کی تفصیل یہ ہے کہ یہ حدیث دیگر کتب میں بھی موجود ہے، مگر ان میں شک کے الفاظ ہیں،یعنی دس افراد شریک ہوئے تھے یا سات، جبکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں یقین کے الفاظ ہیں کہ اونٹ کی قربانی میں سات افراد ہی شریک ہوسکتے ہیں ،لہذا یہ حدیث قابل عمل نہیں ۔چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں یہ حدیث شک کے الفاظ کے ساتھ یوں مروی ہے:’’کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فحضر النحر،فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ،وفی البعیر سبعۃ او عشرۃ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ کسی سفر میں تھے،اسی حالت میں عید الاضحیٰ آ گئی، تو ہم نے گائے سات افراد کی طرف سے، جبکہ اونٹ سات یا دس افراد کی طرف سے قربان کیا ۔    (صحیح ابن خزیمہ ،جلد9،صفحہ318،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت)

   اسی حوالے سے مرقاۃا لمفاتیح میں ہے :’’واما ما ورد فی البدنۃ سبعۃ او عشرۃ فھو شاک،وغیرہ جازم بالسبعۃ‘‘ترجمہ:بہرحال جس حدیث میں دس یا سات افراد کی شرکت کا تذکرہ ہے تو یہ شک کے ساتھ مروی ہے ،اور اس کے علاوہ دیگر احادیث یقین کے ساتھ مروی ہیں کہ اونٹ کی قربانی میں سات افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج3،ص1086،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   اضطراب ِ سند :

   اس  کی تفصیل یہ ہے کہ  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی یہ روایت  حضرت عکرمہ سے حسین بن واقد کے طریق سے مروی ہے ، بعض  طرق  میں حسین بن واقد اور عکرمہ  کے درمیان  علباء بن احمر کا  واسطہ موجود ہے ،جیسا کہ ترمذی شریف کی سند میں  موجود ہے ۔چنانچہ ترمذی میں ہے :”حدثنا الحسين بن حريث، وغير واحد قالوا: حدثنا الفضل بن موسى، عن حسين بن واقد، عن علباء بن أحمر، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: كنا مع النبي صلى اللہ عليه وسلم ۔۔۔الخ(سنن الترمذی،جلد2،صفحہ 241، دار الغرب الاسلامی،بیروت)

   اب دیگر کتبِ حدیث  میں اس روایت کا جائزہ لیا جائے،تو اس  کی سند میں حسین بن واقد  اور حضرت عکرمہ کے درمیان علباء بن احمر کا  واسطہ محذوف ہے ۔چنانچہ مستدرک للحاکم میں ہے : أخبرنا أبوالعباس السياري، ثنا إبراهيم بن هلال، ثنا علي بن الحسن بن شقيق، ثنا الحسين بن واقد، عن عكرمة، عن عبد اللہ بن عباس، رضي اللہ عنهما قال: «كنا مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في سفر فحضر النحر فاشتركنا في البقرة عن سبعة (مستدرك للحاكم ،جلد4،صفحہ 256،دار الکتب العلمیہ ،بیروت)

   خلاصہ کلام یہ ہے   کہ سوال میں  ذکر کی گئی روایت سنداً و متنا ًمضطرب ہے ،اور اگر اس کو تمام طرح کے عوارض  سے محفوظ  تسلیم کر لیا جائے ،تو بھی جمہور کے نزدیک  منسوخ ہے، لہذا اس سے استدلال کر کے یہ کہنا کسی طرح بھی درست  نہیں ہے کہ اونٹ  کی قربانی میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم