Musafir Qurbani Karne Ke Baad Ayam E Qurbani Me Hi Muqeem Ho Gaya To Kiya Dobara Karega?

مسافر قربانی کرنے کے بعد مقیم ہو گیا ،تو کیادوبارہ کرے؟

مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6992

تاریخ اجراء:23ذوالقعدۃ الحرام1443ھ23جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارےمیں  کہ اگر کوئی شخص  مسافر تھا ، پھر بھی  اس نے  قربانی کر لی، لیکن  ایامِ قربانی کے اندر ہی وہ شخص مقیم ہو گیا اور اس میں قربانی کے وجوب کی دیگر شرائط بھی پائی جا رہی ہوں،  تو کیا اب اس پر دوبارہ سے قربانی واجب ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صورتِ مسئولہ میں  اس شخص پر دوبارہ سے  قربانی کی ادائیگی واجب نہیں  ہو گی۔ اس کی نظیر وہ مسئلہ ہے کہ جسے  فقہائے کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ اگرشرعی  فقیر نے قربانی کر دی، حالانکہ اس پر واجب نہ تھی اور  پھر وہ  ایامِ قربانی میں  ہی غنی ہو گیا، تو اس پر نئے سرے سے  قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟اس بارے میں  فقہائے کرام کے دو اقوال ہیں:

      (1) اس پر دوبارہ سے قربانی لازم ہو گی، اس وجہ سے کہ پہلے والی قربانی نفلی ہوئی  اور نفلی قربانی واجب کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ اس قول کو تصحیح کے الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔

      (2)متاخرین  علمائے کرام کے نزدیک اس پر دوسری  قربانی لازم نہیں ہو گی۔اس قول کو  علاماتِ افتاء میں سے ”بہ ناخذ“کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور یہ  کلمات  الفاظِ فتوی کے مساوی شمار ہوتے ہیں ۔   

     علمِ رسم الافتاء کی روشنی میں الفاظِ فتوی یا ان  کے مساوی الفاظ ، تصحیح کے الفاظ سے زیادہ مؤکد و راجح ہوتے ہیں  ،  لہٰذا  جب کسی مسئلے میں دو اقوال ہوں اور دونوں ہی  صحیح ہوں ،  لیکن ایک کے بارے میں تصحیح کے  الفاظ ہوں اور دوسرے کے متعلق  فتوی یا اس کے مساوی الفاظ ہوں، تو  اس  دوسرے قول کوترجیح حاصل ہو گی۔

     اس تفصیل  کے مطابق  پوچھی گئی صورت میں  مسافر پر قربانی واجب نہ تھی، لیکن پھر بھی اس نے   نفلی طور پرقربانی کر دی اور پھر ایامِ  قربانی کے آخری وقت میں وہ شخص مقیم ہو گیا ، تو یہ  اس شرعی فقیر کی طرح ہے کہ جس  پر قربانی لازم نہ تھی، لیکن اس نے کر دی اور پھر قربانی کے آخری وقت میں وہ غنی ہو گیا،لہٰذا راجح قول کے مطابق اس پر دوسری قربانی لازم نہیں ہو گی، بلکہ پہلی قربانی ہی کافی ہو گی، جیسا کہ فقیر والے مسئلے  کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

     اگر شرعی مسافر  یا ایسا شخص کہ  جس  میں  قربانی واجب ہونے کی شرائط نہ  ہونے کی وجہ سے قربانی لازم نہ تھی،اس نے نفلی قربانی کرلی  اور ایامِ قربانی کےآخری وقت میں مقیم ہو گیا یا اس میں وجوب قربانی کی شرائط  پوری ہو گئیں، تو اس کے متعلق فقہائے کرام کے دو اقوال ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔بدائع الصنائع میں ہے : ”اذا لم یکن اھلا للوجوب  فی اول الوقت ثم صار اھلا فی آخرہ  بان کان کافرا او عبدا او فقیرا او مسافرا  فی اول الوقت  ثم اسلم او اعتق او ایسر او اقام فی آخرہ انہ یجب علیہ و لوکان اھلا فی اولہ  ثم لم یبق  اھلا فی آخرہ  بان  ارتدا او اعسر او سافر فی آخرہ لا یجب علیہ و لو ضحی فی اول الوقت فعلیہ ان یعید الاضحیۃ  عندنا و قال بعض مشائخنا لیس علیہ الاعادۃ “ترجمہ:جو  اول وقت میں وجوب قربانی کا اہل نہ ہو ، پھر آخر وقت میں اہل ہو جائے ، اس طور پر کہ  وہ اول وقت میں  کافر یا غلام یا فقیر یا مسافر تھا، پھرآخر  وقت میں  اسلام لے آیا یا آزاد کر دیا گیا یا مالدارہو گیا یا مقیم ہو گیا، تو اس پر قربانی واجب ہو گی اور اگر وہ اول وقت میں اہل تھا، پھر آخر وقت میں اہل نہ رہا، اس طور پر کہ وہ (معاذ اللہ عزوجل) مرتد ہو گیا یا فقیر ہو گیا یا مسافر ہو گیا، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہو گی اور اگر اس نے فقیر ہونے کی حالت میں ہی قربانی کر دی ، تو ہمارے نزدیک اس پر قربانی کا اعادہ کرنا لازم ہو گا اور  ہمارے بعض  مشائخ نے فرمایا کہ اس پر  دوبارہ قربانی کرنا لازم نہیں ہو گا۔(بدائع الصنائع، ج5، ص65، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     اور فتاوی بزازیہ، محیط برہانی اور رد المحتار  وغیرہ کئی کتب میں  اس صورت میں  دوبارہ قربانی کرنے کے عدمِ وجوب کے قول کو ”بہ ناخذ“ کے الفاظ کے ساتھ  ذکرکیاگیا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں (واللفظ للشامی):”افاد ان الوجوب موسع فی جملۃ الوقت غیر عین و الاصل ان ما وجب کذلک یتعین الجزء الذی ادی فیہ للوجوب او آخر الوقت کما فی الصلاۃ وھو الصحیح  وعلیہ یتخرج ما اذا صار اھلا للوجوب فی آخرہ بان اسلم او اعتق او ایسر او اقام تلزمہ لا ان ارتد او اعسر او سافر فی آخرہ ولو اعسر بعد خروج الوقت صار قیمۃشاۃ صالحۃ للاضحیۃدینا فی ذمتہ ولو مات الموسر فی ایامھا سقطت و فی الحقیقۃلم تجب و لو ضحی الفقیر ثم ایسر فی آخرہ علیہ الاعادۃ فی الصحیح لانہ تبین ان الاولی تطوع بدائع ملخصاً۔ لٰکن فی البزازیۃ و غیرِھا ان المتاخرین قالوا:لا تلزمہ الاعادۃ و بہ ناخذ“ ترجمہ:ماتن علیہ الرحمۃ نے اس بات کا افادہ فرمایا کہ وجوب  کو پورے وقت میں وسعت دی گئی ہے ، نہ کہ متعین وقت میں اور  اس میں اصل (قانون)  یہ ہے کہ جو چیز اس  طرح واجب ہو کہ  وجوب کا وقت متعین ہو کہ جس میں اسے ادا کیا جائے  یا آخری  وقت میں اس کی ادائیگی متعین ہو،  جیسا کہ نماز میں اور یہی صحیح ہے اور اس پر  وہ مسائل نکلتے ہیں  کہ جب وہ وقت کے آخری حصے میں  وجوب کا اہل ہو جائے ، اس طور پر کہ کافر مسلمان ہو گیا  یا غلام کو آزاد کر دیا گیا یا فقیر مالدار ہو گیا یا مسافر مقیم ہو گیا ، نہ  یہ کہ  وہ آخری وقت میں مرتد ہو گیا یا تنگدست(شرعی فقیر) ہو گیایا مسافر ہو گیا اور اگر کوئی  وقت نکلنے کے بعد  تنگدست ہو گیا ، تو قربانی کے قابل بکری کی قیمت  اس کے ذمے دَین ہو جائے گی اور اگر ایامِ قربانی میں  مالدار شخص فوت ہو گیا، تو قربانی ساقط ہو جائے گی اور حقیقت میں واجب ہی نہ  ہوئی  اور اگر فقیر نے قربانی کر لی ، پھر وہ اس کے آخری وقت میں  مالدار ہو گیا، تو صحیح قول میں اس پر دوبارہ قربانی  کرنا لازم ہے، کیونکہ ظاہر ہو گیا کہ  پہلی قربانی نفلی ہوئی ہے ۔ ملخص از بدائع الصنائع ۔ لیکن بزازیہ و غیرہ  میں یہ ہے کہ متاخرین نے فرمایا : اس پر دوبارہ قربانی لازم نہیں ہو گی اور ہم اسی کو (فتوے کے لیے) لیتے ہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج9،ص525،مطبوعہ پشاور)

     بہ ناخذ “الفاظِ فتوی کے مساوی الفاظ ہیں۔ چنانچہ اس کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”فاذا صرحوا بلفظ الفتوی  فی قول علم انہ الماخوذ بہ و یظھر لی ان لفظ  ”وبہ ناخذ“ و ”علیہ العمل“ مساو للفظ الفتوی “ترجمہ:جب فقہائے کرام کسی قول میں لفظِ فتوی کی صراحت فرمائیں ، تو معلوم ہو جائے گا کہ یہی ماخوذ بہ  ہے اور میرے لیے ظاہر ہے کہ  ” بہ ناخذ “ اور ” علیہ العمل “ لفظِ فتوی کے مساوی ہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج1، ص173، مطبوعہ  پشاور)

     نیز شرح عقود رسم المفتی میں  علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ایک قول پر  فتوے کے الفاظ ہوں اور دوسرے پر تصحیح کے الفاظ ہوں ، تو  فتوے والے الفاط جس قول پر ہوں گے، اسے ترجیح دی جائے گی۔چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ”اذا اختلف  اللفظ فان کان احدھما  لفظ الفتوی فھو اولیٰ  لانہ لایفتی  الا بما ھو صحیح  و لیس کل صحیح یفتی بہ لان الصحیح فی نفسہ  قد لایفتی بہ  لکون غیرہ  اوفق لتغیر الزمان  و للضرورۃ و نحو ذلک فما فیہ لفظ الفتوی  یتضمن شیئین  احدھما  : الاذن بالفتوی بہ  و الاخر صحتہ لان الافتاء بہ تصحیح  لہ بخلاف مافیہ  لفظ الصحیح ا و الاصح مثلا“ترجمہ:جب دو صحیح اقوال  کی تصحیح کے الفاظ  مختلف ہوں ، پس ان میں سے ایک فتوی کے لفظ  کے ساتھ ہو، تو  وہی اولیٰ ہو گا ، کیونکہ جوصحیح نہ ہو ، اس پر فتوی نہیں دیا جا سکتا اور ہر صحیح پر فتوی نہیں دیا جاتا، کیونکہ تغیرِزماں اور ضرورت وغیرہ کے  زیادہ موافق ہونے کی وجہ سے  بعض اوقات فی نفسہ ہر صحیح قول پر فتوی نہیں دیا جاتا، تو لفظِ فتوی دو چیزوں کو ضمن میں لیے ہوئے ہے :(۱) ان میں سے ایک  چیز یہ ہے کہ اس قول  پر فتوی دینے کی اجازت ہے اور(۲) دوسری چیز  اس کا صحیح ہونا ہے، کیونکہ اس پر فتوی دینا اس قول کو صحیح قرار دینا ہے ،  بر خلاف اس قول کے کہ جس میں مثال کے طور پر صحیح یا اصح کے الفاظ موجود ہوں۔(شرح عقود رسم المفتی ، ص191 تا 192،دار النور للتحقیق و التصنیف ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم