Qurbani Ki Qaza Mein Di Jane Wali Raqam Kis Ko Di Jaye?

قربانی کی قضا میں دی جانے والی رقم کس کودی جائے ؟

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1990

تاریخ اجراء: 27صفرالمظفر1445ھ /14ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ  مجھے اپنی سابقہ سال کی قربانی جو  رہ گئی تھی ، اس کی رقم بطور قضا ء صدقہ کرنی ہے ، کیا میں  یہ رقم کسی مدرسے کے قاری صاحب   کو دے سکتی ہوں ؟  رہنمائی فرمادیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صاحب نصاب شخص پر  قربانی کے ایا م اگر گز ر جائیں اور جانور بھی قربانی کے لیے نہ خریدا ہو ، تو پھر ایسی بکری کی قیمت  صدقہ کرنا لازم آتی ہے ،جس کی قربانی ہوسکتی ہو ،اور یہ بکری کی قیمت صدقہ کرنا صدقاتِ واجبہ میں سے ہے ، اور صدقات واجبہ انہی  کو دے سکتے ہیں ، جنہیں زکوۃ دینا جائز ہوتا ہے  ، لہذا اگر وہ قاری صاحب مستحق زکوۃ ہیں ،  یعنی شرعی فقیر ہیں اور سید یا ہاشمی بھی نہیں ، تو انہیں یہ رقم دی جاسکتی ہے ، مگر   یاد   رہے کہ یہ رقم بطور تنخواہ   نہیں دے سکتے ، کہ تنخواہ بطور عوض کے دی جاتی ہے ، اور صدقات واجبہ کو بطور عوض کسی کو دینا جائز نہیں ۔ 

   چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے :” وان کان لم یوجب علی نفسہ ولا اشتری وھو موسر حتی مضت أیام النحر تصدق بقیمۃ شاۃ تجوز فی الأضحیۃ۔ ‘‘یعنی :اگر قربانی اپنے اوپرخود واجب نہیں کی تھی اور نہ ہی قربانی  کے لیے جانور خریدا تھا اور وہ صاحب نصاب بھی تھا (اور اس نے قربانی نہیں کی) یہاں تک کہ ایام نحر گزر گئے تو اب ایک ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے گا جس کی قربانی جائز ہوتی ہو۔“(بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 203 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    صدقاتِ واجبہ کے مصرف سے متعلق ، رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:’’(مصرف الزکوۃ والعشر)هو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني۔‘‘ ترجمہ:جو زکوٰۃ و عشر  کا مصرف ہے،وہی  صدقہ فطر،کفارہ ، نذر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کا بھی مصرف ہے جیسا کہ قہستانی میں ہے۔“(رد المحتار علی الدر المختار،با ب المصرف، جلد3 ،صفحہ333،مطبوعہ کوئٹہ)

       بطور تنخواہ  کسی کو زکوۃ وغیرہ دیناجائز نہیں ، اس کے متعلق امامِ اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں :” زکوۃ کی رقم تنخواہِ مدرسین میں نہیں دے سکتے ۔“(فتاوی رضویہ ، جلد10، صفحہ262، رضا فا ؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم